حکومتیں صرف مساجد سے وابستہ لوگوں کو’’ فورتھ شیڈول ‘‘میں کیوں ڈال رہی ہیں ۔ کیا کسی شرابی ‘ چرسی ‘ فحاشی کے اڈے چلانے والے کا نام بھی ’’فورتھ شیڈول ‘‘ میں ڈالا گیا ؟ اس ملک کو ’’اسلامی جمہوریہ ‘‘کہتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ کوئی شک نہیں ’’اسلام آباد ہائیکورٹ‘‘ کی طر ح ہر اُس شخص کو شرم آنی چاہیے جو مسلمان ہے ۔ سوئے اتفاق سے پیدائشی مسلمان نہیں۔ ’’دین‘‘ کو پڑھ کر ۔ سمجھ کر زندگی گزارنے والا صحیح العقیدہ مسلمان ۔ اُن کو بھی جو زہریلی شراب پی کر ہلاک ہونیوالے سینکڑوں لوگوںکا دکھ منانے اور موت کا باعث بننے والی ’’وجہ ‘‘کے انسداد کیلئے آواز اُٹھانے کی بجائے نام نہاد’’ لاپتہ‘‘ افراد کی گمشدگی پر ماتمی شمعیں روشن کرنے کِسی نہ کِسی چوک میں پہنچ جاتے ہیں ۔ پاکستان آزادی اظہار کا نہ صرف حامی بلکہ ہر قسم کے طبقات کی سوچوں ، تقاریر، تحاریر کی بہت بڑی پرورش گاہ ۔ لیبارٹری بن چکا ہے ۔ احتجاج کرنیوالوں اور احتجاج پر اُکساکر لانے والوں کو معلوم نہیں کہ "سوشل میڈیا" ایسے گستاخ دین لوگوں کے مفلظ خیالات سے کتنا متعفن ہو چکا ہے ۔ یقینا امام ، مؤذن حضرات حکومتوں کی تادیبی کاروائی کیلئے خصوصی دلچسپی کا مرکز نہیں ۔ مساجد ‘ مدرسوں کو بدنام کرنیوالے اور اُنکے آلہ کار پوری طرح سے آشکار ہیں ۔ شعائر اسلام ‘ تو ہین مذہب کے مرتکب کِسی بھی طبقہ ‘ جماعت ‘ مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ہرگز معافی کے قابل نہیں ۔ بے محابا آزادی انفرادی زندگی میں ہو یا اجتماعی رویوںمیں۔ ہلاکت خیز نتائج کا موجب بنتی ہے ۔ آج ہماری پارلیمنٹ (مختصر وقفہ کے بعد) میں بھی شراب نوشی کی بازگشت گونجتی رہی ہے ۔ بلاشبہ انسانی حقوق کی پاسداری ریاست کا فرض ہے جو وقتاً فوقتاً اظہار تشویش ظاہر کرتی رہتی ہے مگر بحیثیت پاکستانی صرف ہماری نہیں ۔ قوم کی اکثریت خواہش رکھتی ہے کہ معاشرے میں غلاظت پھیلانے والے عوامل۔ عناصر کیخلاف تعزیری اقدامات اُٹھائے جائیں۔ 16سال کا بچہ کتنا بڑا ہوتا ہے ؟ مگر معاشرے کو بد تہذیبی میں ڈبوئے سیلاب نے عشق کا ایسا بھوت لگایا کہ خود کو گولی مارلی جس کی ابھی تعلیم مکمل نہیں ہوئی ۔ پائوں پر کھڑے ہونے کی مدت تو بہت آگے تھی ۔ پہلے منشیات اب یقینا یہ پہلا ‘ دوسرا واقعہ بھی نہیں ہوگا ۔ لوگ سینکڑوں مثالیں ہمیں سنا کر چپ کرانے کی کوشش کر سکتے ہیں مگر کیا "ایسا ہوتا رہتا ہے ، کوئی نئی بات نہیں" کہہ کر ہم دامن جھاڑ لیں ۔ مجموعی بے حسی کا حصہ بن جائیں ۔ تعلیمی ادارے تو حکمت و وانش کے موتی چننے کا نام ہے ۔ زندگی کِس ڈھب سے گزاری جائے ۔ ایسا علم حاصل کرنے ۔ اُسے اپنی روحوں کے اندر اُتارنے کا فن کدہ ہے مگر یہ کیسے ادارے ہیں جو ایک ایسی نسل پیدا کر رہے ہیں ،جو مشرقی آداب اپنے اسلاف کی تابندہ روایات سے نابلد بلکہ انڈین و انگریزی چینل و رسالے ‘ اداکاروں کا کچھ بھی پوچھ لو رٹا ہو گا ۔ سار دن ٹی وی ، کمپیوٹر ‘ موبائل پر مصروف پود۔ اگر انہیں’’ قرآن پاک‘‘ پڑھنے کا کہہ دو تو جواب ملتا ہے کہ وقت نہیں ‘ فلاں دن فلاں ٹیسٹ ہے ۔ ہم سبھی مجرم ہیں ، گنہگار ہیں اگر ہمیں یقین ہے کہ روز محشرہمارا امتحان ’’ملکہ برطانیہ ‘ انکل سام ‘‘لے گا تو پھر سب کچھ100% ٹھیک ہے بلکہ کم ہے ہمیں مزید100 قدم آگے بڑھ کر عیاں ہونا چاہیے‘ اور اگر ذرا سا بھی یقین ہے کہ حشر کی گرمی میں صرف ہمارا دین ہی ہمیں بچا پائے گا تو پھر ایک" اسلامی مملکت" میں ان خرافات کی کوئی گنجائش نہیں ۔ 24 گھنٹے کا ساتھ ‘ اکٹھے گھومنا پھرنا ، کھانا رنگ لاتا ہے۔ اُس صورت میں زیادہ جب دل بغض ‘ حسد ‘ برائی کے زعم میں مبتلا ہوں۔ بعینہ یہی صورتحال آجکل "عالمی نقشے "پر نظر آرہی ہے ۔ امریکہ کی اندرونی کشمکش ،لڑائی اب سرحدیں پار کر کے دنیا میں ہلچل مچا رہی ہے ۔ طویل عرصہ سے فرضی دشمن پر متحد متفق امریکہ ‘ یورپ کا مسلم کش ’’ہنی مون ‘‘تنازع کی طرف بڑھتے ہوئے اختتام کی خبر دے رہا ہے ۔" نیٹو" کو بیکار اور فرسودہ قرار دینے پر یورپ صدر ٹرمپ پر سخت برہم ہے ۔10 لاکھ سے زائد مہاجرین کو داخلے کی اجازت دینے کی غلطی کا مرتکب "جرمن چانسلر" کو قرار دینے پر جرمن چانسلر نے آگے بڑھ کر امریکہ کو ’’مشرق وسطیٰ ‘‘کے پناہ گزینوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ سب کچھ بغیر سوچے سمجھے خطہ میں امریکی مداخلت کا شاخسانہ ہے ۔ ’’وکی لیکس‘ پاناما لیکس‘ بھا ماس لیکس‘‘ کے بعد سیاسی سچائیوں ‘ تاریخی حقائق کی لیکس کا نزول شروع ہو چکا ہے ۔ یقینا کچھ عرصہ مسلم دنیا کو ریلیف مِلے گا ۔ اب تک مسل دنیا میں جتنی غارتگری ہوئی وہ سایوں کا تعاقب تھی ۔" القاعدہ " جن کا وجود بھی سامراج نے خود تراشا ‘ خاتمے کا اعلان بھی خود کیا ۔ اب "داعش 4" لوگوں کی گمشدگی پر ماتم کناں عالمی دنیا کو میانمار میں جاری ہزاروں مسلمانوں کی نسل کشی نظر کیوں نہیں آتی ؟ مقبوضہ وادی کے نہتے مسلمانوں پر بھارتی بربریت "یورپ" کی آنکھ سے کیسے ، کیوں اوجھل ہے ؟ عراق میں داعش کو بھارتی ادویات فراہم کر نے کی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ ۔ کیا عالمی طاقتوں سے پوشیدہ ہے ؟ ہم ہی’’فورتھ شیڈول ‘‘میں کیوں شامل ہیں ؟ ایران نے 8ہزار غیر قانونی افغان بے دخل کیے ‘ پاکستان نے صرف 1650،نکتہ بحث یہ اعدادوشمار نہیں بلکہ دُکھ اُس مائنڈیٹ کا ہے جو ہم سے روا رکھا جاتا ہے ۔ ربع صدی سے زائد35"لاکھ" سے زیادہ لوگوں کی میزبانی کرنے کے باوجود اپنی ہر نااہلی کو ہماری طرف اُچھالنے والے حالات کو سدھارنے کی صلاحیت تو پیدا کر یں ۔ اپنا ملک سنبھالا نہیں جاتا تو حکمرانی چھوڈ دیں ۔ ہم کو سبق سکھانے والے خود کسی دن بیکار مواد بن کر کِسی کونے میں پڑے ہونگے‘ پہلے والوں کی طرح ۔ دہشت گردی پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ کابل سے لیکر میکسیکو کے نائٹ کلب تک حالات بڑی طاقتوں کی غیر قانونی مداخلتوں ‘ جغرافیائی بندر بانٹ کے علاوہ اُس معاشی نا انصافی کا بھی عکس ہیں جو دنیا کے غالب وسائل پر قبضے کیلئے روا رکھی گئی ۔ "آکسفیم فلاحی تنظیم" کی رپورٹ ہے کہ دنیا کے8 امیروں کی دولت آدھی آبادی سے زیادہ ہے ۔ 6کا تعلق امریکہ سے ہے ۔ ہر10 میں سے ایک شخص 2 ڈالر روزانہ سے بھی کم پر زندگی گزار رہا ہے ۔ غریبوں کیلئے مراعات کا سلسلہ سکڑتا جا رہا ہے جبکہ استحصال کیوجہ سے معاشروں میں سماجی تقسیم بہت گہری ہوتی جارہی ہے ۔ دنیا میں سیاسی تحریکوں کی اُٹھان اِسی عدم مساوات کی وجہ سے ہو رہی ہے ۔ صدر ٹرمپ کا الیکشن جیتناسب سے بڑا ثبوت ہے جو عالمی اشرافیہ سے ہضم نہیں ہورہا جبکہ آنے والے دنوں میں" امریکہ "مزید تنہائی کی طرف چلا جائے گا۔ نئے اتحاد نئی تقسیم سامنے آرہی ہے ۔ غربت‘ جہالت‘ دہشت گردی کی نرسریاں ہیں ۔ ایک مرتبہ نہیں سینکڑوں مرتبہ لکھا ۔ (کالمز گواہ ہیں ) مگر اِنکے انسداد کی بجائے انسانی حیات کے خاتمے پر توپ کا رُخ رکھا گیا‘ نتائج سامنے ہیں ۔ دنیا کا کوئی بھی خطہ محفوظ نہیں مگر اب بھی حقائق سمجھنے کی بجائے توپ کا گولہ ہماری گردن پر رکھ کر نہ ختم ہونے والے مطالبات کی سیریل چل رہی ہے ۔ ہمسایوں کی شر انگیزی ‘ جارح قوتوں کی شرارتوں پر کِسی کی نظر نہیں جاتی مگر اکیلے ہم کو ہی’’ فورتھ شیڈول‘‘میں ڈال رکھا ہے ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38