حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ ہے کہ وہ کوہ زیتون سے ہو کر عبادت گاہ میں آئے تو لوگ ایک زانی عورت کو پکڑ کر لے آئے اور کہا کہ موسیٰ اور اس کا قانون کہتا ہے کہ اسے سنگسار کیا جائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تم میں سے جو گنہگار نہ ہو وہ پہلا پتھر مارے۔ اس زمانے کے لوگ بھی آج کل کے زمانے کے لوگوں سے ذرا مختلف مزاج تھے۔ سب لوگ اپنے اپنے ضمیر کے مجرم بن کر تتر بتر ہو گئے اور عورت اکیلی رہ گئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس عورت سے کہنے لگے ’’سب چلے گئے ہیں …جاؤ اور مزید گناہ نہ کرو‘‘ … میں نے جس کتاب میں یہ واقعہ لکھا ہوا پڑھا اس سے آگے شیفتہ کا یہ شعر بھی لکھا ہوا تھا …؎
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکائت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو اپنے دامن اور ’’بند قبا‘‘ کے بارے میں خوب معلوم ہے اور اب یہ حکایت پاک دامنی سے آگے بڑھ چکی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ ’’پانامہ لیکس‘‘ پر بات کرنے کے لئے پیپلزپارٹی والے پہلا پتھر نہیں مار سکتے تھے لیکن جوں جوں فیصلے کا وقت قریب آئے گا حالات کو دیکھ کر وہ تتر بتر ہونے کے باوجود اکٹھے ہو جائیں گے اور ٹف ٹائم دینے کی بات کریں گے ورنہ تو ’’اپوزیشن‘‘ کا کردار صرف تحریک انصاف کے حصے میں جائے گا اور بقول سپریم کورٹ کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ لگا تو پارلیمنٹ میں سراج الحق کے سوا کوئی نہیں بچے گا چاہے سپریم کورٹ نے اس بیان پر معذرت بھی کر لی۔ یہ تو صورتحال سیاسی سطح کی ہے مگر ایک اور نفسیاتی معاملہ بڑا اہم ہے چند برس قبل جب پی ٹی وی کا یہ حال نہیں تھا اور ڈراموں کا بھی ایک معیار تھا ان دنوں ایک ڈرامہ دکھایا گیا تھا جس میں ایک غریب لڑکی کسی بہت امیر باپ کی بیٹی کے جہیز زیورات اور دیگر اشیاء کی خریداری کو دیکھ دیکھ کر ڈیپریشن کا شکار ہو جاتی ہے اور اس کے اندر اس قدر احساس کمتری پیدا ہوتا ہے کہ وہ خودکشی کر لیتی ہے۔ آج پانامہ لیکس کے سپریم کورٹ کے اندر کیس کی سماعت کے دوران جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اور خاص طور پر محترمہ مریم نواز شریف کے اثاثے‘ پراپرٹی اور دیگر اشیاء کا ذکر ہوتا ہے اس سے ہمارے ملک کی غریب بیٹیوں کے جذبات کیسے مجروع ہو رہے ہیں اور وہ کس احساس کمتری میں مبتلا ہو رہی ہے اس کے بارے میں شاید کسی نے بھی نہیں سوچا ہو گا۔ بالکل اسی طرح حسین نواز کے کروڑوں بھیجے جانے اور پھر والد کو تحفہ ملنے اور پھر رقوم کی کسی اور طرف روانگی کا یہ جال ایسا سنہرا جال ہے کہ جس نے پاکستان جیسے غریب ملک میں بسنے والے غریب نوجوانوں کو نفسیاتی طور پر اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ایک پروگرام میں سنگا پور کے لی کوان یو سے پوچھا گیا کہ ’’سنگا پور نے جس طرح ترقی کی ہے اس کی قیمت اس ملک کو جمہوریت کی قربانی کی شکل میں ادا کرنا پڑی ہے۔ اس کا وہ کیا جواب دیں گے ؟ٰ ‘‘ لی نے کہا … اصل مسئلہ جمہوریت کا نہیں ’’ڈسپلن‘‘ کا ہے اقبال خان نے اپنی کتاب میں اس لفظ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’اس سے پہلے کہ ہم اس کے جمہوریت دشمن معنی کی طرف توجہ دیں یہ ضروری ہے کہ ہم اس لفظ کے ان معنوں پر اک نظر ڈالیں جن کو سمجھنے سے جمہوریت گھٹتی نہیں بڑھتی ہے‘‘ اور کسی قسم کے ڈسپلن سے جمہوریت بڑھتی ہے مگر گھٹتی نہیں ہے ان میں 1 ۔ عدلیہ کا ڈسپلن 2 ۔ مالیاتی اداروں کا ڈسپلن 3 حکومتی اداروں کا ڈسپلن اور سیاستدانوں کا ڈسپلن ہے اور سیاستدانوں کے ڈسپلن کے لئے آج کل ایک عجیب منطق نکال لی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان تہذیب یافتہ افراد والی استعمال کریں اور کرخت اور سخت لہجے اختیار نہ کریں اب جھوٹ ‘ فراڈ‘ کرپشن اور اقرباء پروری پر بات ہو گی تو میٹھے میٹھے اشعار سنا کر اور ’’جی حضور‘‘ کر کے دلوں کو لبھانے والے جملے تو نہیں بولے جائیں گے کیونکہ سچی بات ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ مہذب انداز میں گفتگو ہو نا چاہئے مگر سیاستدانوں کا اصل ڈسپلن جو لکھا گیا ہے وہ یوں ہے …’’سیاستدانوں کو کوئی ایسی مراعات حاصل نہ ہوں جن سے ملک کے قوانین کی براہ راست یا بالواسطہ خلاف ورزی ہوتی ہو یا جو ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کریں‘‘۔اب سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے مگر یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کے دلوں میں یہ بات تو آ چکی ہے کہ وہ سیاستدانوں سے کہیں کہ ’’جاؤ اور مزید گناہ نہ کرو‘‘ کیونکہ لوگ تتر بتر ہو بھی جائیں تو جس انداز میں مال و دولت کی یہ بحث سامنے آئی ہے اس نے ملک کی غریب بچیوں اور نوجوان بچوں کے دماغ میں بہت سارے سوالات بھر دئیے ہیں۔ عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ کبھی کبھی اﷲ پاک خود ’’سوموٹو‘‘ ایکشن کر لیتا ہے لیکن اﷲ پاک کا یہ ایکشن ہر اس حکمران اور سیاستدان کے لئے ہے جو اپنی حد سے بڑھ کر پاؤں پھیلاتا ہے۔ کیونکہ یہ ملک کسی کی خاندانی وراثت اور مال بنانے کے لئے نہیں بنایا گیا تھا ایک اور تحریر کچھ یوں تھی ’’وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ حزب اختلاف کی کارروائیوں سے غریبوں کی خوشحالی کو نقصان پہنچے گا‘‘ یعنی اس تحریر میں ’’خوشحال غریبوں‘‘ کا نیا اور مزاحیہ لہجہ سامنے آیا ہے۔ یہ حکومت بھی اس دور حکومت میں یہی لہجہ اپنائے ہوئے ہے۔
۔۔۔