میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا لکھوں؟ کیسے لکھوں؟ قلم لکھنے سے قاصر ہے دماغ نے سوچنا بند کر دیا ہے زبان گنگ ہے، رومال بھیگتے جا رہے ہیں لیکن آنکھیں ہیں کہ خشک ہونے کا نام نہیں لے رہیں کبھی سنتا ہوں تو اپنی ہی سسکیوں کی مدھم سی آواز سنائی دیتی ہے‘ بولنا چاہتا ہوں‘ تو لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے جا رہے ہیں.... چلانا چاہتا ہوں.... مگر اپنے چاروں طرف تہذیب اور ”مینرز“ کا ہجوم دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ لیتا ہوں.... جدھر نظر اٹھتی ہے‘ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے کندھوں پر کتابوں کا بیگ اٹھائے سکول کی طرف بھاگتے، چہکتے، ہنستے مسکراتے اور آپس میں اٹکھیلیاں کرتے نظر آتے ہیں‘ آنکھیں بند کرتا ہوں تو سکول کا آڈیٹوریم، کلاس رومز، صحن‘ معصوم بچوں کے خون سے لت پت دکھائی دیتا ہے‘ ہر طرف چھوٹی چھوٹی لاشیں پڑی ہیں‘ در و دیوار لہو سے رنگین ہو چکے ہیں‘ میرا دم گھٹنے لگتا ہے، سانس رکتا ہوا محسوس ہوتا ہے‘ خوف کے مارے جھٹ سے آنکھیں کھول لیتا ہوں‘ فضاءمیں بچوں کی مشیرم صدائیں گونجتی ہیں۔ لب پہ آتی ہے دعا بن کہ تمنا میری‘ وائے حسرت....سانحہ پشاور پاکستان ہی نہیں، انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور بدترین سانحہ ہے، تاریخ عالم کا مطالعہ کریں تو بڑے بڑے ظالم، جابر حکمران نظر آتے ہیں‘ جیسے چنگیز خان، ہلاکو خان، ہٹلر وغیرہ۔ لیکن بچوں کیساتھ اس قسم کا سفاکانہ اور وحشیانہ سکول کسی نے بھی نہیں کیا۔ آرمی پبلک سکول کے بچوں کو گولیاں مارنے والے اور بم دھماکوں سے ہلاک کرنیوالے دہشت گرد‘ انسان تو کیا جانور کہلانے کے بھی مستحق نہیں کہ جانور بھی انسانوں سے محبت کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ یہ انسانوں کی شکل میں کوئی اور ہی مخلوق ہے جس کے سینے میں دل نام کی کوئی چیز نہیں۔ انسان تو اشرف المخلوقات ہے۔ یہ لوگ تو بس کیا کہوں؟ قبل اسلام کے ان وحشی عربوں کی کوئی نسل معلوم ہوتی ہے جو اپنی بچیوں کو زندہ درگور کرایا کرتے تھے‘ اس سانحے نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘ ہر شخص حیران ہے کہ کیا کوئی انسان ایسا بھی کر سکتا ہے؟ پورا ملک اشکوں، آہوں اور سسکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہر صاحب اولاد کا دل لہو لہو ہے‘ پورے پاکستان میں صف ماتم بچھ گئی ہے.... ہر طرف ماتم ہے.... گریہ زاری ہے....
اس سانحے کے اگلے روز میں اپنے کالج پہنچا‘ اس دن گاڑی خراب ہونے کے باعث مجھے رکشہ پر جانا پڑا تو راستے میںرکشہ والے نے پشاور کے معصوم شہیدوں کا ذکر کیا اور رونے لگا‘ میرے بھی آنسو چھلک پڑے.... کالج پہنچا تو پرنسپل نے پشاور کے بچوں کے غم میں ایک تعزیتی ریفرنس منعقد کروایا جس میں پرنسپل کے علاوہ تمام اساتذہ، سٹاف اور طلباءکی بڑی تعداد نے شرکت کی.... یقین کیجئے! پرنسپل سے لیکر گیٹ کیپر تک اور اساتذہ سے لے کر طلباءتک سب اشکبار تھے‘ یوں لگ رہا تھا کہ ہمارا اپنا کوئی چل بسا ہے اور اس میں شک بھی نہیں.... بچوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں‘ دہشت گردوں کےخلاف جنگ اسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے جب حکومت اور اپوزیشن ملکر اس چھپے ہوئے خطرناک دشمن کا مقابلہ کریں۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے سلسلے میں ایک تجویز یہ بھی ہے کہ پاکستان بھر میں تمام مکان مالکان اور پراپرٹی ڈیلر حضرات کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ جب بھی اپنا مکان کسی کو فروخت کریں یا کرائے پر دیں.... توعلاقے کے ڈی ایس پی سے وہ شخص (جس نے مکان خریدنا یا کرائے پر لینا ہے) این او سی حاصل کر کے مالک مکان کو دے تاکہ کوئی ایسا شخص جو کسی بھی قسم کے غیر قانونی کام یا دہشت گردی میں ملوث ہو اسے پورے پاکستان میں کہیں بھی مکان خریدنا یا کرائے پر لینا اتنا آسان نہ ہو جتنا کہ اس وقت ہے اور اگر ڈی ایس پی کے این او سی کے بعد یہ پتا چلے کہ مذکورہ شخص (جس نے کوئی مکان خریدا یا کرائے پر لیا) کسی غیر قانونی کام یا دہشت گردی میں ملوث ہے یا اس کیخلاف ملک کے کسی بھی علاقے میں کوئی مقدمہ درج ہے تو این او سی دینے والے ڈی ایس پی کو فوری طور پر معطل کر کے اس کیخلاف باقاعدہ تحقیقات کی جائیں کہ کہیں وہ بھی تو کسی دہشت گرد گروہ یا کسی غیر قانونی کام کرنیوالے گینگ سے ملا ہوا تو نہیں؟ اس قدم سے کم از کم شہروں کے اندر دہشت گردوں کیلئے سرچھپانا مشکل ہو جائیگا۔ یہ قانون پورے ملک (شہروں، دیہاتوں، قصبوں) میں لاگو ہونا چاہئیے۔دوسرا کام حکومتی سطح پر یہ ہونا چاہئیے کہ ملک کے تمام دینی مدارس کی مکمل سکروٹنی ہونا چاہئیے۔ ان مدارس میں کیا سلیبس پڑھایا جا رہا ہے؟ ان کو کہاں کہاں سے فنڈزملتے ہیں؟ اور کہاں کہاں یہ فنڈز خرچ ہوتے ہیں؟ اسکی مکمل تفصیل حکومت کے پاس ہونی چاہئیے۔ اور سب سے اہم یہ بات کہ تمام سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سکیورٹی اس قدر فول پروف ہونا چاہئیے کہ پرنسپل تک تمام سکیورٹی مراحل سے گزر کر اندر پہنچے۔ اس میں نجی سکولوں کو انکے اپنے اخراجات سے سکیورٹی کے وہ تمام انتظامات، جو حکومت طے کرے، مکمل کرنے کا حکم دیا جائے اور سرکاری تعلیمی اداروں کی سکیورٹی حکومت اپنے اخراجات سے مکمل کرے۔ یہ ایک طویل جنگ ہے جس میں ہمیں اپنا دفاع بھی کرنا ہے اور حملہ بھی....
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024