پاکستان کے چاروں صوبوں میں اگر پچھلے چار سالہ دور حکومت کا اختصاراً تقابلی جائزہ لیں تو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ان میں نمایاں نظرآتے ہیں پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے سندھ کا ذکر کریں جہاں اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت ہے تو اس صوبے کے بڑے شہر کراچی میں ترقیاتی امور تو ایک طرف اگر صفائی کے حوالے سے بھی دیکھیں تو کراچی میں جا بجا پہاڑیوں کی شکل اختیار کئے ہوئے کچرے کے ڈھیر اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ سندھ حکومت کراچی میں صفائی کے حوالے سے ناکام نظر آتی ہے اسی طرح تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی اس صوبہ میں کوئی کام نہیں کیا جا سکا تھر پارکر میں صحت کی سہولیات کے فقدان کے باعث سینکڑوں معصوم بچے ہلاک ہوئے بعینہ تعلیم کا شعبہ ہے جہاں کوئی قابل ذکر کام نظر نہیں آتا جہاں تک صوبہ میں امن وعامہ کی صورت حال کا تعلق ہے تو اسے یہاں دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے اور لوگ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ اب ذکر کرتے ہیں صوبہ خیبر پختونخواہ کا جہاں اس وقت تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں کسی بھی شعبہ میں ترقیاتی امور عنقاء ہیں۔ جس کی بظاہر وجہ یہ نظر آتی ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی پوری توجہ اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف دھرنوں، سیاسی جلسے اور جلسوں پر مذکور رہی صوبہ میں تحریک انصاف کے چار سالہ دور حکومت میں عمران خان نے بمشکل چند دن ہی یہاں گزارے ہیں اور وہ بھی ایک ساتھ نہیں بلکہ مختلف اوقات میں ان کی اس بے توجہی کی بدولت صوبہ کے کسی بھی شعبہ میں ترقیاتی کام نظر نہیں آتے جہاں تک صوبہ بلوچستان کا تعلق ہے تو وہاں سرداری نظام کے باعث یہ صوبہ ہمیشہ ترقیاتی کاموں میں نظر انداز رہا ہے پیپلز پارٹی کے دور میں صوبہ بلوچستان کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ جو پاکستان کے قومی دن کی ایک تقریب میں خطاب کررہے تھے جہاں وہ مہمان خصوصی تھے تو کثرت مے نوشی کے باعث وہ اپنی پہلے سے لکھی ہوئی تقریر کے چند ہی الفاظ کہہ پائے تھے کہ بھرے اجتماع میں روسٹرم سے گر گئے اور انہیں ان کے سکیورٹی گارڈ جلسہ گاہ سے اٹھا کر لے گئے تو ایسے میں وہاں ترقیاتی کام کیا ہوتے۔ صوبہ بلوچستان کے لوگوں کو بھی گلہ ہے کہ انہیں ترقیاتی کاموں سے دور رکھا گیا ہے اور اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہاں کے سردار ہی اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اب ذکر کرتے ہیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا جہاں واقعتاً ترقیاتی کام ہوئے ہیں جو نظر بھی آتے ہیں اور یہ کام وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی انتھک جدوجہد سے عبارت ہیں میاں شہباز شریف جو متعدد بار پنجاب اور قومی اسمبلی کے ممبر رہے ہیں وہ لیڈر آف اپوزیشن بھی رہ چکے ہیں اور وہ 2013کے عام انتخابات میں پانچویں مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2013کے انتخابات میں وہ پنجاب اسمبلی کے تین حلقوںپی پی 159، پی پی 161اور پی پی 247 سے منتخب ہوئے جب کہ ان انتخابات میں انہوں نے قومی اسمبلی کے حلقہ 129میں بھی کامیابی حاصل کی ازاں بعد انہوں نے پنجاب اسمبلی کی نشست پی پی 159 اپنے پاس ہی رکھی اور باقی اپنی جیتی ہوئی تمام صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں سے وہ دستبردار ہوگئے اور بلا مقابلہ پنجاب کے تیسری بار وزیر اعلی منتخب ہوئے جو ایک ریکارڈ ہے۔ انہیں پنجاب اسمبلی کے کل 371 ارکان میں سے 300ارکین کی بھاری اکثریت نے منتخب کیا۔ اور8 جون 2013 میں انہوں نے پنجاب کے وزیر اعلی کا عہدہ سنبھالا۔ عہدہ سنبھالتے ہی وہ بڑی تندھی اور جانفشانی سے صوبہ پنجاب کے ترقیاتی امور کے لئے مصروف عمل ہوگئے اور دن رات کی تفریق کئے بغیر انہوںنے اس سلسلے میں کام شروع کردیا۔ میاں شہباز شریف جنہیں انتظامی امور کا ماہرکہا جاتا ہے کہ ہر سرکاری محکمہ پر انہوں نے بھر پور توجہ دی اور ان میں انقلابی تبدیلیاں لے آئے۔ سرکاری ملازموں کو ان کے فرائض کی انجام دہی کا کاربند بنایا اور ان کی کسی قسم کی کوتاہی اور لغزش کو نظر انداز نہ کرتے ہوئے ان کی سخت سرزنش کی اور سرکاری محکموں کا ماحول درست کیا اور انہیں پبلک فرینڈلی بنایا۔ پولیس کے محکمہ میں بڑی تبدیلیاں کی اور انہیں عوام کی خدمت کا پابند کیا اور امن عامہ کی صورت حال کو بہتر بنانے اور شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کے لئے کئی نئی فورسز قائم کیں۔ پولیس کی پرانی فرسودہ یونیفارم کی جگہ نئی یونیفارم متعارف کرائی اور پرانی یونیفارم اور پولیس کے پرانے رویہ کے پیش نظر عوام میں نفسیاتی تبدیلی پیدا کی علاوہ ازیں صحت، تعلیم، زراعت اور صنعتی طور پر نمایاں اور بنیادی تبدیلیاں لے آئے اور ان شعبوں کی نئی ڈگر پر ترویج کی اور جرائم کے قلع قمع کے لئے جرائم پیشہ لوگوں پر کریک ڈائون کیا اور صوبہ میں امن و امان قائم کردیا جس کے باعث لوگوں میں ایک نئی مثل نے جنم لیا کہ ’’جہاں جرم وہاں شہباز شریف‘‘ اورجس کے باعث جرائم پیشہ لوگوں کا خاتمہ کرنے میں موثر اقدامات کئے جاسکے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024