بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی مستقبل
بلاول آپ آکسفورڈ یونیورسٹی کے طالب علم رہے ہیں۔ اسی یونیورسٹی سے آپ نے گریجویشن کی ہے۔ آپ کی والدہ صاحبہ اور نانا بھی اسی یونیورسٹی کے طالب علم رہے ہیں۔ دنیا کے اس شہرت یافتہ ادارے سے تعلیم حاصل کرنا قابل فخر کارنامہ ہے۔ آپ چونکہ ابھی ابھی سیاست میں داخل ہوئے ہیں اس لئے آپ کا دامن کرپشن سے پاک ہے۔ آپ مسٹر کلین ہیں آپ کا پاکستان کی سیاست میں داخل ہونا قابل تحسین عمل ہے۔ آپ سے آپ کی پارٹی اور ہم جیسے وطن پرست لوگوں کو بڑی توقعات ہیں آپ پاکستان کی دوسری بڑی جماعت پی پی پی کی گرتی ہوئی ساکھ اور مقبولیت کو سہارا دے کر پارٹی کو اس کا جائز مقام دلوا سکتے ہو۔ لیکن یہ کٹھن عمل ہے اس کے لئے آپ کو ذہنی اور نفسیاتی قربانیاں دینی پڑیں گی۔
آپ جلسے جلوس نکال کر جیالوں کو جمع کر کے جو تاثر حاصل کرتے ہیں وہ ٹھوس اور حقائق پر مبنی نہیں عوامی حلقوں میں پی پی پی اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔ اس کی وجہ آپ کے نانا حضور کی سوشلسٹ اور اشتراکی پالیسیاں ہیں جو دنیا بھر میں ناکام ہو چکی ہیں اس کے دو بڑے مرکز سابقہ سویت یونین اور چائنا‘ لیگل ‘ لینن‘ مارکس کی تعلیمات سے آہستہ آہستہ چھٹکارا حاصل کر رہی ہیں۔ ان کا فکر و فلسفہ اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔ اب دنیا بھر میں آزاد معیشت جیسے سرمایہ دارانہ نظام یا مارکیٹ اکانومی مقبول ہو رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اپنے نانا کے فکر و فلسفے کو چھوڑنا یا اس میں بنیادی تبدیلیاں لانا بہت مشکل ہے۔ آپ کی ذہنی کشمکش اس شعر کی تعبیر ہے۔
کیسے کہوں کہ مجھے چھوڑ دیا اس نے
بات سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اگر آپ یہ کڑوا گھونٹ نہیں بھریں گے آپ پارٹی کے لئے عوام الناس کی ہمدردیاں حاصل نہیں کرسکیں گے۔ آپ کے نانا مرحوم ایک متنازع شخصیت تھے۔ ان کے چاہنے والے بھی بہت تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ مخالف بھی بہت بڑی تعداد میں موجود تھے۔ موصوف کی کرشماتی شخصیت اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے مخالفوں کی تعداد بڑھ نہ سکی۔ اس کا دوسرا سبب موصوف کا وڈیرا شاہی ذہن تھا۔ وڈیرا کسی دوسرے شخص کو اپنے مدمقابل نہیں دیکھ سکتا اسے نیچا دکھانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتا ہے ذاتی پولیس گستاپو کی طرز پر ترتیب دیتا ہے۔ مخالف کہتے ہیں کہ یہ چوراسی ہزار ۸۴۰۰۰ افراد پر مشتمل گروہ آپ کے نانا نے ایف ایس ایف کے نام پر بنایا ہوا تھا جومخالفوں کو مارپیٹ سے بڑھ کر قتل بھی کرتا تھا۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر نذیر‘ خواجہ رفیق‘ سردار مینگل کا بیٹا‘ دا¶د خان آف قلات‘ حیات شیر پا¶ اور دیگر لوگوں کے نام لئے جاتے ہیں۔
وڈیرا ذاتی جیل خانہ بناتا ہے اور مخالف دعویٰ کرتے ہیں کہ بھٹو نے دلائی آزاد کشمیر میں ایک کیمپ کھولا ہوا تھا جو مخالفین کو بلا مقدمہ چلائے وہاں ڈال دیا جاتا تھا۔ ان کے لواحقین کو ان کی کوئی خبر نہیں ہوتی تھی۔ عدالت کے کسی شخص کو پیش کئے جانے کے اختیارات کا قانون معطل کردیا تھا۔ عدالتیں بے بس تھیں۔ عوام کو بے دست کرنے اور حکومت کا محتاج بنانے کیلئے آٹا‘ چاول‘ چینی‘ سیمنٹ‘ سریا وغیرہ سرکاری دکانوں(ڈپو¶ں) سے خریدنی پڑتی تھیں۔ جہاں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر یہ اشیاءملتی تھیں۔ دہاڑی دار مزدور اپنی ایک دن کی مزدوری سے محروم ہو کر یہ اجناس حاصل کر سکتا تھا۔ پاکستان کی چلچلاتی دھوپ میں دو تین گھنٹے قطار میں لگے رہنا ایک سزا سے کم نہ تھا۔ گورنمنٹ ان اشیاء کو سبسٹائز قیمت پر فروخت کرتی تھی اور عوام پر احسان کرتی تھی۔ ایک یا دو روپے کی سبسڈی کسی کام کی نہ تھی۔ یہ سرکاری خزانے پر بلاوجہ بوجھ تھی اور اس کے نتیجے میں اٹھنے والے اخراجات ہمیں دوسرے ملکوں سے ادھار لینے پڑتے تھے۔ یہ رقم انتظامی اخراجات پر ہی صرف ہو جاتی تھی اور مشہور کہاوت کے مصداق کہ مرغی جان سے گئی اور کھانے والے کو مزہ نہ آیا۔
آپ کے نانا مرحوم نے اخباروں‘ رسالوں ‘ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قبضہ جمایا ہوا تھا۔ اپوزیشن جو نہ ہونے کے برابر تھی اپنا نقطہ نظر پیش کرنے سے قاصر تھی۔ آپ کے نانا کو کوثر نیازی جیسے لوگ میسر تھے۔ موصوف نے بھٹو کا قصیدہ ”دیدہ ور“ کے عنوان سے تحریر فرمایا تھا۔ بھٹو خوشامد پسند لیڈر تھے۔ ہر وقت خوشامدیوں کے گروہ میں گھرے رہتے تھے۔ اپنی رائے کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کے روادار نہ تھے۔ پانچ سال تک ان کی عظمت کا بلاشرکت غیرے پروپیگنڈا ہوتا رہا۔ جس نے ان کی شخصیت کو بہت بلند و بالا کر دیا۔ آپ کی والدہ محترمہ بڑی سیاسی لیڈر تھیں لیکن حالات نے انہیں دیر تک حکومت کرنے کا موقع نہ دیا۔ دونوں دفعہ انہیں آدھی مدت سے زیادہ حکومت نہ کرنے دی گئی۔ اس لئے ان کا ذکر نہیں کیا جا رہا۔ اب بال آپ کی کورٹ میں ہے۔ اگر آپ اپنے نانا اور والدہ کی حکمرانی کی پالیسیوں اور ان کی شخصیات کی عظمت کے سہارے ووٹ لیکر حکومت بنانے کی امید رکھتے ہیں تو اسے دوبار سوچئے۔ راقم آپ کو پاکستان کی سیاست میں ایک مسٹر کلین اور تعلیم یافتہ نوجوان جس کے اپنے سیاسی نظریات اور پالیسیاں ہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ آپ میرے تلخ حقائق بیان کو دل کی آواز سمجھیں۔ سچا خیر خواہ وہ ہوتا ہے جو آپ کو تلخ حقائق سے آگاہ کرے اور آپ کو اپنی پالیسی صحیح خطوط پر استوار کرنے میں مددگار ہو۔ نوجوان طبقہ آپ کے نانا اور والدہ کی سیاسی شخصیت اور کارناموں سے ناواقف ہے اس لئے آپ کو ان رشتوں سے شہرت اور مقبولیت ملنے کے بہت کم امکانات ہیں۔
پیپلزپارٹی مسز تھیچر کے دور کی لیبر پارٹی سے مشابہت رکھتی ہے اگر آپ اس کا گہری نظر سے مطالعہ کریں اور پارٹی کی پالیسیوں کو عہد حاضر کی ضروریات کے مطابق ترتیب دے کر ان کی تشہیر کریں مخالف سیاستدانوں کے خلاف ذاتی الزامات لگانا چھوڑ دیں یہ عمل جلسے جلوسوں میں تو چند لمحوں داد اور نعرہ حاصل کر لیتا ہے لیکن پارٹی کے لئے ووٹرز مہیا نہیں کر سکتا۔ جگتیں اور فقرے کسنا بھانڈوں کا کام ہے۔ سیاست مہذب اور قابل احترام پیشہ ہے۔ آپ کو ٹونی بلیئر کی طرح پالیسیاں بدل کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنی چاہئیں اور سیاست میں ذاتی الزامات کے کلچر کو خیرباد کہنے کی فضا بنانی چاہئے۔ آپ مخالف پارٹیوں کی پالیسیوں اور نظریات پر سنجیدہ تنقید کریں بڑے سیاستدان فکر و فلسفے کے حامل ہوتے ہیں جس کی تشہیر کرتے ہیں مخالفوں پر سنجیدہ تنقید کرتے ہیں۔ آپ ایک بڑا لیڈر بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسے فضول باتوں سے ضائع نہ کریں۔