ایک مسیحا ایک چارگرہ
صبح کے تین بج رہے تھے نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی بار بار میرے ذہن میں ساحل لدھیانوی کا یہ شعر گردش کر رہا تھا۔
آو¿ کہ کوئی خواب ب±نیں کل کے واسطے
ورنہ یہ رات آج کے تاریک دور کی
ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کے جان و دل
تا عمر نہ پھر کوئی حسین خواب بن سکیں گا
میرے ہاتھ میں ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کتاب تھی آدھے ادھورے خواب میں اب تک یہ سمجھتی تھی کہ انگریزی زبان کے ناوئلسٹ پاولو کوئیلو کے علاوہ شاید جذبوں کی آنچ کو کاغذ پر منتقل کرنے کا فن کسی کو نہیں آتا۔ لیکن میں غلط تھی۔ جوں جوں میں نے اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا میرے اندر کئی احساسات کی لہر دوڑ ا±ٹھی۔ امید تبدیلی، خواب، انسپائریشن۔ بہت سارے ان کہے جذبوں کی داستان انہی احساسات کے مدو جزر میں میں ایک ہی نشست میں اس کتاب کے آخری صفحے تک پہنچ گئی۔ آدھے ادھورے خواب ایک ناوئلٹ ہے جس کا مرکزی کردار پروفیسر سہارن رائے اور دوسرا اہم کردار اس کی سٹوڈنٹ اتثال آغا ہے۔ لیکن یہ ناوئلٹ صرف ایک ناوئلٹ ہی نہیں بلکہ یہ ایک موثر تعلیمی اور تدریسی عمل کا ترجمان ہے اور رہنما بھی۔ آج جہاں تعلیم نہ صرف اپنا معیار سے گر گئی ہے بلکہ تعلیمی عمل محض ریت کے گھروندے تعمیر کرنے کا شغل رہ گیا ہے۔ ایسے تعلیمی نظام جس کے بہت سارے شاگرد وقت کی دھول میں اٹ کر غم روزگار کا بھاری پتھر ا±ٹھائے درماندہ مسافر کی طرح راستہ میں ہی کہیں رہ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی کا لکھا ہوا یہ ناوئلٹ کسی نسخہ ہائے کیمیا سے کم نہیں یہ اپنے قاری کو ایک سفر کی دعوت دیتا ہے ایک آدھے ادھورے خواب کو مکمل کرنے کی دعوت۔
پھر مجھے یہ احساس کچوکے لگانے لگا کے کیا پروفیسر سہارن رائے جیسا استاد حقیقت کی دنیا میں بھی موجود ہو سکتا ہے۔ وہ سہارن رائے جو تعلیم کو افراد اور معاشرے میں تبدیلی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ جو تعلیم کے غیر رسمی ذرائع دریافت کرنے ان کا احیاءاور ان کو تخلیق کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ جو تعلیم کو سماجی انقلاب لانے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ جو ایسی تعلیم پر یقین رکھتا ہے۔ جو نیوٹرل اور پئیسونہ ہو بلکہ معاشرے کے دل میں دھڑک رہی ہو۔ جو اپنے خواب اپنے شاگرد کی آنکھوں میں بھر کر کہتا ہے کہ میرے خواب آج سے تمہارے خواب ہیں۔ جو یہ بتا دیتا ہے کہ خواب اور نظریہ کی محبت سب سے ارفع محبت ہے جو ہمیں باقی تمام محبتوں سے بے نیاز کرتی ہے۔ میری سوچ اورگہری ہوتی چلی گئی دل میں ایک سرگوشی سے ابھری کہ آج اتثال آغا جیسا حساس شاگرد بھی تو نہیں رہا آج کون ہے جو اپنے استاد کے خواب کو جیے شاید آج کے جدید دور میں تو استاد شاگرد اور کتاب کی تکون ہی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ یا شائد آج کا شاگرد بھی تعلیمی نظام کی بے معنویت کی وجہ سے بے یقینی اور کم حوصلگی کا شکار ہو گیا ہے۔
لیکن اس نا امیدی اور بے یقینی کی کیفیت میں ایک نام میرا ذہن میں بجلی کی طرح کوندا۔ شاہد صدیقی۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی۔ میں چونک سے گئی ہاں پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی، پروفیسر سہارن رائے ہی تو ہے۔ یہ ڈاکٹر شاہد صدیقی ہی تو ہیں جنہوں نے آج کے دور کی تمام قباحتوں، پیچیدگیوں کے باوجود امید کے دئیے جلائے۔ یہ ڈاکٹر شاہد صدیقی ہی تو ہیں جنہوں نے ڈراپ آو¿ٹ گرلز کے نام سے پسماندہ علاقوں کی لڑکیوں کے لیے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا پراجیکٹ شروع کیا۔ جس نے کئی خواہشوں کے خواب گروندے ٹوٹنے سے بچا لیے۔ یہ ڈاکٹر شاہد صدیقی ہی ہیں جنہوں نے تعلیم کے ذریعے سماجی تبدیلی کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا۔ اور آج پاکستان کی جیلوں میں قید ایک ہزار قیدی بغیر فیس کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ ڈاکٹر شاہد صدیقی ہی ہیں جنہوں نے بصارت سے محروم طلباءکے لیے ملک کے 44 اوپن یونیورسٹی سنٹرز میں جدید سوفٹ وئیر سے آراستہ کمپویٹر لیبز بنا دیں جس میں سوفٹ وئیر کے ذریعے آواز ٹیکسٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اور جسے کوئی بھی بصارت سے محروم طالب علم استعمال کر سکتا ہے۔ یہ ڈاکٹر شاہد صدیقی ہی ہیں جنہوں نے تعلیم کی سمت درست کرنے کے لیے ایک جدوجہد کا آغاز کر رکھا ہے۔ جنہوں نے تعلیم کے میدان میں معاشی عدم مساوات کو ایڈریس کیا۔ اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وہ سٹوڈنٹس جو فیس ادا نہیں کر سکتے وہ مفت تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ وہ ڈاکٹر شاہد صدیقی ہیں جن کے پاس سماجی ناہمواریوں کو کم کرنے کے لیے ویڑن بھی ہے اور ایکشن بھی۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں لیکن ع±ہدوں کے بطن سے کبھی کردار کی اونچائیاں جنم نہیں لیتیں۔ اس کے لیے انسان کا بلند ہونا ضروری ہے۔ اور میں اس چارہ گر اس مسیحا ڈاکٹر شاہد صدیقی کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہوں جو اس ٹوٹے بکھرے معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد صدیقی کا یہ ناولٹ نہ صرف مکمل اندازِ فکر ہے بلکہ یہ قاری کو ایک تخلیقی عمل کی دعوت بھی دیتا ہے۔ یہ وہ ناولٹ ہے جس کو اردو کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔ تا کہ سوچ کو بدل کر نوجوان ذہنوں کی آبیاری کی جا سکے۔ نوجوان نسل معاشرے کی تعمیر میں حصہ لے اور آدھے ادھورے خواب پورے ہو سکیں۔