اس غلط فہمی کے حصار سے جلد باہر آ جانا چاہئے کہ فوجی آپریشن کے دوران نواب اکبر بگتی کی ہلاکت نے جو ردعمل پیدا کیا اس سے بلوچستان لبریشن فرنٹ‘ بلوچستان لبریشن آرمی نے جنم لیا۔ لشکر جھنگوی اور ٹی ٹی پی ان کی معاون ہیں۔ اس غلط فہمی کو بھی دور کر لیا جائے کہ بھارت سی پیک کی مخالفت میں ان دہشت گرد اور علیحدگی پسند تنظیموں کو آج فنڈز‘ تربیت اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی مسئلہ کشمیر پیدا کر دیا گیا تھا اور تب سے ہی بھارت پاکستان کی بقا و سلامتی کےخلاف ناپاک عزائم کی تکمیل کےلئے سازشوں اور پاکستان دشمن اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔ بلوچستان میں جب سی پیک کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا بھارتی ایجنسی را نے بعض بلوچوں کو ورغلا کر گمراہ کر دیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں جب لیفٹیننٹ جنرل رحیم الدین بلوچستان کے گورنر تھے پہلی مرتبہ سوئی سے کوئٹہ پہنچائی گئی اس کےلئے جن مشقتوں کا سامنا رہا ان سے آگاہ کرنے کیلئے لاہور کے صحافیوں کے وفد نے کوئٹہ اور وہاں سے کولپور ہل کا دورہ کیا۔ پاکستانی ماہرین گیس پائپ لائن دریائے بولان کے نیچے اور کولپور پہاڑ میں راستے بنا کر کوئٹہ تک لانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ جنرل رحیم الدین روزانہ تھرماسوں میں چائے بھر کر لاتے اور یہاں کام کرنے والے ایک ایک فرد کو اپنے ہاتھوں سے چائے پیش کر کے حوصلہ افزائی کرتے۔ اس پہاڑ پر ایک جانب چڑھتے ہوئے میرے نزدیک ایک بڑے خطرناک سانپ کو دیکھ کر پیچھے آنےوالے ساتھی انوار قمر کی سٹی گم ہو گئی۔ مجھے آواز دیکر خبردار کرنے کی صورت میں اندیشہ تھا وہ حملہ نہ کر دے۔ بہرحال خدائے بزرگ و برتر نے محفوظ رکھا۔ یہ تو لاشعوری طور پر ماضی کی یاد کا پٹارہ کھل گیا۔ کولپور ہل سے وابستہ ایک اور یاد جس نے مجھے وقتی طور پر سخت دھچکا لگایا وہ ملیشیا رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس ایک شخص کی اچانک ملاقات اور مصافحے کےلئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس کا کہا ہوا یہ جملہ تھا ”میرا نام عبدالغفار اچکزئی ہے۔ میں آزادی بلوچستان تحریک کا ورکر ہوں“ چند لمحے تو میں مبہوت سا ہو گیا پھر اس سے بہت سی باتیں ہوئیں۔ مقصد وہ داستان بیان کرنا نہیں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے کالم نویس اور تجزیہ نگار براہمداغ بگتی اور حربیا امری کی سرگرمیوں کو نواب اکبر بگتی کی غیر فطری ہلاکت کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ بھارت سمیت پاکستان دشمن یہ آگ بہت پہلے سے لگائے ہوئے ہیں البتہ سی پیک کیونکہ پاکستان کے معاشی استحکام اور ترقی کی یقینی ضمانت ہے اس لئے بھارت کے سینے پر سانپ زیادہ تیزی سے لوٹ رہے ہیں۔ اس نے نہ صرف ڈالر کی جھلک اور عیش و عشرت کی چمک دکھا کر کچھ بلوچوں کو گمراہ کیا بلکہ اپنے نیوی کے حاضر سروس آفیسر کلبھوشن کے ذریعہ دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کیا۔ دہشتگردی کرائی کلبھوشن نے جس کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ ایف سی سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق گذشتہ دو سال میں ایک ہزار چالیس افراد دہشتگردی کا شکار ہوئے جن میں سے 153 ٹارگٹ کلنگ‘ 49 فرقہ ورانہ دشمنی‘ 764 بے گناہ افراد شامل ہیں جبکہ مختلف مقامات سے 53 مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ اگرچہ فوج‘ رینجرز‘ ایف سی اور پولیس کی مشترکہ کارروائیوں سے کافی حد تک یہ وارداتیں ختم ہوئی ہیں مگر دشمنوں کی ناپاک کوششوں کا سلسلہ بالکل رکا نہیں ہے‘ جب موقع ملتا ہے ان کے ایجنٹ واردات کر جاتے ہیں جیسا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے پندرہ افراد کو بہیمانہ انداز سے گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ میڈیا کے مطابق اس میں انسانی سمگلر بھی ملوث تھے جنہوں نے ان افراد کو دہشت گردوں کے حوالے کیا۔ سابق وزیراعلیٰ اختر مینگل نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے البتہ ان کا بھائی جاوید مینگل دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہے اور ”لشکر بلوچستان“ کے نام سے ایک دہشت گرد گروپ چلا رہا ہے جو براہمداغ بگتی کے بلوچ ری پبلکن آرمی اور حربیا مری کی بلوچ لبریشن آرمی اس کے معاون اور خود دہشت گردی میں ملوث ہیں لیکن ان ناموں سے ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ کوئی بڑی افرادی قوت رکھتے ہیں۔ تنظیمی لحاظ سے انکی حالت پاکستان کی ”تانگہ پارٹیوں“ جیسی ہی ہے۔ یہ وطن فروش اور ننگِ ملت افراد بلوچستان کے عوام کو گمراہ کرنے کیلئے بلوچستان کی محرومیوں کا رونا روتے ہیں لیکن درحقیقت یہ بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں‘ یہ محض الزام نہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے جو صوبائی حکومت کے عہدیدار اور حکام بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کے کروڑوں روپے ڈکار گئے ان رقوم کا خاصا حصہ انکے گھروں سے برآمد ہوا۔ ان کیخلاف ایک لفظ نام نہاد قوم پرستوں کے منہ سے نہیں سنا گیا بلکہ یہ ڈاکٹر نذراللہ بلوچ کی سربراہی میں تعمیر و ترقی کی راہ ہموار کرنے اور بلوچ عوام کو سکھ پہنچانے والے ڈاکٹروں‘ ماہرین‘ اساتذہ‘ انجینئروں اور محنت کشوں کو قتل کرتے اور انکی زندگی اجیرن بناتے ہیں۔ ان میں ایک مثال بلوچستان یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر محمود الزمان کی بھی ہے جنہیں صرف اس لئے زدوکوب کیا گیا کہ وہ اردو بولتے تھے چنانچہ وہ دلبرداشتہ ہو کر پہلے کراچی پھر جاپان چلے گئے‘ اب بھی وہاں ہیں۔ یہ 1994ءکا ذکر ہے میں کوئٹہ گیا تب جنگ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر برادرم مجید اصغر کے پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب سے کوئٹہ میں بننے والے بولان میڈیکل کالج کے بارے میں کچھ منفی خیالات سنے۔ میں نے سوال کیا بولان میڈیکل کالج کی مخالفت کیوں۔ اس سے بلوچستان کے نوجوانوں کو میڈیکل کے شعبہ میں آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ اس نے جواب دیا یہ کالج ہمارے نہیں پنجابی پروفیسروں کےلئے بنایا جا رہا ہے۔ میں نے کہا پنجابی پروفیسروں کو نہ آنے دیں‘ بلوچی پروفیسر رکھ لیں۔ اس نے کہا بلوچی پروفیسر نہیں ہیں۔ میں نے سمجھانے کی کوشش کی ”بھائی پنجابی پروفیسروں کو ہی اگر لایا جائےگا تو پڑھیں گے تو بلوچستان کے طلبہ و طالبات اور جب وہ خود ڈاکٹر اور پروفیسر بن جائینگے تو پھر وہ پنجابی پروفیسروں کی جگہ لے لیں گے“ مگر انکی سمجھ میں آنا تھا نہ آیا۔ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل زبیر حیات کے مطابق بھارت نے 500 ملین ڈالر سے ایک فنڈ قائم کیا ہے جس کا سربراہ بھارتی حکومت کا سپیشل سکیورٹی ایڈوائزر ہے۔ اس سے بلوچستان میں دہشت گردی‘ کالعدم تنظیموں‘ پاکستان طالبان اور باغیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا کو فنڈ فراہم کئے جائینگے۔ پاکستانی فوج‘ رینجرز‘ ایف سی اور پولیس کے افسروں اور جوانوں نے زندگیاں نچھاور کر کے بلوچستان کو امن کا گہوارہ بنایا۔ جن علاقوں میں پاکستانی پرچم اور قومی ترانہ شجر ممنوعہ بن چکے تھے۔ دہشتگردوں کے بھاگتے ہی وہاں کے لوگ جس پرجوش انداز میں قومی پرچم لے کر بڑے جلوسوں کی صورت باہر نکلے یہ علیحدگی پسندوں کے منہ پر طمانچہ نہیں‘ جوتا ہے۔ بہرحال دائمی امن کیلئے ملک اور صوبے میں سیاسی استحکام ضروری ہے اور ذمہ داری تو ظاہر ہے سیاستدانوں کی ہے جن کی اکثریت کی پیشانیوں پر لوٹ کھسوٹ‘ بدعنوانیوں کے الزامات اور بیڈ گورننس کے داغ سجے ہیں اور 2018ءکے انتخابات تک شاید اس آرزو میں رنگ نہ بھر سکے لیکن اسکے بعد بھی یہ عوام کے صحیح فیصلے پر ہی منحصر ہے۔ انتخابات میں عوام اپنے شعور و فہم و فراست کے جو بیچ بوئیں گے ویسی ہی فصل کاٹیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024