(گزشتہ سے پیوستہ)
قائداعظم ؒ اپنی مصروفیات کے باعث بیوی اور بیٹی کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے تھے۔ مریم جناح 1929ءمیں صرف 29 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اس وقت قائداعظمؒ کی بیٹی دینا جناح کی عمر صرف دس سال تھی۔جس کا 2نومبر2017ءکو امریکہ میں انتقال ہو گیا۔ قائداعظمؒ اپنی اکلوتی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناحؒ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ دینا کی اسلامی تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں۔ دینا کو قرآن پڑھانے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ دینا کوماں کی موت کے بعد باپ کے پیار اور توجہ کی شدید ضرورت تھی۔ دوسری طرف آل انڈیا مسلم لیگ تھی جس کے پلیٹ فارم سے قائداعظمؒ تحریک پاکستان کو آگے بڑھا رہے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ بھی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہنے لگیں۔ لہٰذا دینا جناح اپنے پارسی ننھیال کے زیادہ قریب ہو گئیں۔پھر وہ وقت آیا جب قائداعظمؒ کو پتہ چلا کہ ان کی بیٹی ایک پارسی نوجوان نیول واڈیا کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہیں۔
قائداعظم نے اپنی بیٹی کو ایک غیر مسلم کے ساتھ شادی کرنے سے روکا۔ اس موضوع پر باپ بیٹی کے درمیان ایک مکالمہ تاریخ کی کئی کتابوں میں محفوظ ہے۔ قائداعظم نے اپنی بیٹی کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں لاکھوں پڑھے لکھے مسلمان لڑکے ہیں تم ان میں سے کسی بھی مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی کر لو۔ جواب میں بیٹی نے باپ سے کہا کہ ہندوستان میں لاکھوں خوبصورت مسلمان لڑکیاں تھی لیکن آپ نے ایک پارسی لڑکی سے شادی کیوں کی؟ قائداعظم نے جواب میں کہا کہ پیاری بیٹی تمہاری ماں نے شادی سے قبل اسلام قبول کر لیا تھا لیکن بیٹی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ قائداعظم جن کی آنکھ کے ایک اشارے پر کروڑوں مسلمان اپنی گردنیں کٹوانے کے لئے تیار تھے وہ اپنی بیٹی کے اصرار کے سامنے بے بس ہو گئے۔ بیٹی نے باپ کی مرضی کے بر عکس شادی کر لی۔قائداعظم شادی میں شریک نہیں ہوئے۔ وہ بیٹی سے سخت ناراض تھے۔ انہوں نے بیٹی سے ملنا جلنا کم کر دیا۔ بیٹی کی طرف سے کبھی سالگرہ پر مبارکبادکا کارڈ آتا تو قائداعظم جواب میں لکھ بھیجتے کہ ”مسز واڈیا آپ کا بہت شکریہ“۔ قائداعظم کے کچھ مخالفین نے کوشش کی کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ جس شخص کی بیٹی نے ایک غیر مسلم سے شادی کر لی وہ مسلمانوں کا لیڈر کیسے ہو سکتا ہے؟۔ لیکن برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت قائداعظم کے ساتھ کھڑی رہی۔
دینا11 ستمبر 1948ءکو اپنے والد کے انتقال کے موقع پر کراچی پہنچی تھیں اور کچھ وقت اپنی پھوپھو محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ گزارنے کے بعد واپس لوٹ گئی تھیں۔ دینا دوسری مرتبہ 2004ءمیں اس وقت پاکستان آئیں جب بھارتی کرکٹ ٹیم چودہ سال بعد پاکستان آئی، اس سیریز کے دوران بھارت سے آنیوالی شخصیات میں دینا واڈیا بھی شامل تھیں۔ یہ میچ لاہور میں ہوا تھا۔کچھ عرصہ قبل دینا نے ممبئی کے جناح ہاﺅس کی ملکیت کیلئے ممبئی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور کہا کہ جس گھر میں وہ پیدا ہوئیں اس گھر میں زندگی کے آخری دن گزارنا چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی تو حکومت پاکستان سے کچھ بھی لے سکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے عظیم باپ کی زندگی میں ایک دفعہ نافرمانی ضرور کی لیکن کبھی اپنے باپ کے نام پر کوئی مالی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔قائداعظم کو بیٹی کی نافرمانی کا بہت دکھ تھا مگر اس پر بھی ان کے رویے میں اعتدال نظر آتا ہے۔ انہوں نے ڈنشاءکی طرح شدت پسندی کا مظاہرہ کیا نہ ہی بیٹی کی اس سرکشی کو نظر انداز کیا۔ان سے ایک مناسب فاصلہ اختیار کرلیا مگر انہیں عاق نہیں کیا۔دینا کے ناپسندیدہ اوردل شکن رویے سے قائد کو یقینا صدمہ ہوا مگر قائد کی سیاست اور قیام پاکستان کی جدوجہد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
دینا میچ کیلئے لاہور آئیں مگر باقی شخصیات کیساتھ وہاں سے واپس نہیں گئیں۔ ان کے جذبات نے انہیں پاکستان آ کر باپ کے مزار پر حاضری دیئے بغیر واپس نہیں جانے دیا۔ وہ کراچی گئیں اور مزار پر حاضری دی جہاں وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں۔اس موقع پر لی گئی تصویر میں دینا واڈیا روتے ہوئے مزار قائد سے واپس جا رہی ہیں۔یہ ایک منفرد جذباتی منظر ہو گا کہ نصف صدی سے زیادہ عرصے کے بعد پہلی بار ایک بیٹی اپنے باپ کے مزار پر آئی ہو۔ اس باپ کے مزار پر جسے اس نے باپ کی زندگی کے آخری برسوں میں دیکھا ہو گا نہ ملی ہو گی۔ دینا واڈیا نے اپنے باپ کے مزار پر حاضری کو ایک قطعی نجی مصروفیت رکھاتھا۔ اس باپ کے مزار پر جسے دنیا قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے حکام سے اس خواہش کا اظہار اصرار کی حد تک کیاکہ ان کی حاضری کے وقت مزار پر کوئی فوٹو گرافر موجود نہیں ہونا چاہئے ورنہ وہ واپس چلی جائیں گی۔ مزار پر وزیٹر بک میں انہوں نے جو جذبات ظاہر کئے گو مختصرہیں مگر جامع تھے ۔انہوں نے وزیٹر بک پر ایک جملہ یوں لکھا۔
یہ میرے لئے ایک دکھ بھرا شاندار دن ہے۔ ان کے خواب کو پورا کیجئے۔
دینا واڈیا نے قائد کی شیروانی بھی دیکھی اور کہا کہ وہ اس کے درزی کو جانتی تھیں۔ واقفیت کا یہ اظہار گزرے، بیتے دنوں کی یاد کا عکس ہے جو ہمیشہ دینا کے ساتھ رہا ہو گا، رہتا ہوگا۔وہ باپ کی زندگی میں ان سے الگ ہوئیں اور تقریباً ساٹھ سال بعد ان کے مزار پر حاضر ہوئیں ان کی جذباتی کیفیت کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ اسے محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ دیکھا نہیں جا سکتا۔ باپ کی محبت انہیں فلیگ سٹاف ہاﺅس لے گئی جہاں انہوں نے قائداعظم کے نوادرات دیکھے۔ موہٹہ پیلس گئیں جہاں کبھی ان کی پھوپھی محترمہ فاطمہ جناح رہتی تھیں اور وہ وزیر مینشن گئیں جہاں ان کے والد پیدا ہوئے تھے۔اس دورے کے دوران دینا واڈیا کا انٹرویو کرنے کی کوشش کی گئی تو دینا واڈیا نے جواب دیا کہ میں محمد علی جناح کی بیٹی ضرور ہوں اور اپنے باپ سے آج بھی محبت کرتی ہوں اس لئے اپنے بیٹے سنی واڈیا اور پوتوں کے ساتھ اپنے باپ کے خواب پاکستان کو دیکھنے آئی ہوں لیکن میں اپنے باپ کے نام سے شہرت نہیں کمانا چاہتی۔
دینا واڈیا کی نافرمانی افسوسناک ہے، جس سے پاکستان کو کیا نقصان پہنچا؟ کوئی نہیں‘ قطعاً نہیں۔ مگر آج پاکستان 14ہزار8سو ارب روپے کا مقروض ہے، صدر پاکستان ممنون حسین کہتے ہیں، عوام حکمرانوں سے پوچھیں چار سال میں کوئی ہسپتال بنا نہ ڈیم، اتنا قرضہ کہاں گیا؟ جن لوگوں کی والدین سے فرمانبرداری کا تذکرہ کالم شروع میں کیا۔ پاکستان پر قرض اس حد تک پہنچنے میں کہیں نہ کہیںان کا نام ضرور آتا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024