جمہوریت کے استحکام کے لیے انتخابات میں شفافیت نا گزیر ۔ "عمران خان"
رتی بھر جھوٹ سے پاک سچ غیر جانبدار سچائی" الیکشن" ۔ آج یا کچھ ماہ بعد ۔ جب بھی ہوئے ۔" پی ۔ ٹی ۔ آئی " کی جیت ۔ بھرپور کامیابی یقینی ہے ۔ "سرحد ۔ پنجاب" میں میدان مارے گی ۔ شفاف ہوئے تو ۔موجودہ انتظامی مشینری ۔ سیاسی بندوبست کی موجودگی میں" ن لیگ "پنجاب میں جیت جائے گی مگر کامیابی کا تناسب لمحہ موجود سے کم ہوگا ۔ کئی جگہوں پر حیران کُن شکستیں دِکھائی جائیں گی ۔ (شفافیت ظاہر کرنے کے لیے مختصراً موجودہ "سیٹ اپ" ہی اگلے پانچ سال قوم کی قسمت ۔ مقدر پر قابض رہے گا ۔"عمران خان ہو یا ن لیگ" ۔ ہمارا یا عوام کا مسئلہ نہیں ہے "پی پی پی "یا کوئی بھی جماعت ۔ گروہ ہمارا درد سر نہیں ۔ قوم کے مسائل ہیں تو یہ ۔ "صاف پانی ۔ بجلی ۔ گیس ۔ منہ زور مہنگائی" ۔ پیٹ بھرا ہو تو انسان میلوں کچی ۔ ٹوٹی سٹرک پر چل سکتا ہے ۔ خالی پیٹ موٹر وے کے چند کوس پار نہیں ہوتے ۔ دنیا جہان کی سینکڑو ں محیر العقول ایجادات ۔سائنسی اختراعات ۔ انسانی ذہن کے استعمال کے ناقابل یقین کمالات کی قابل رشک تاریخ مرتب کرنے کے باوجود "امریکہ ۔ چین" ریت + بجری کو خوراک کا نعم البدل نہیں بنا پائے ۔" پڑھا لکھا پنجاب" کا سفر پیٹ کے بعد شروع ہوتا ہے ۔13" تعلیمی ادارے "۔ پورے پاکستان کے نہیں صرف" پنجاب "کے ۔ ان اداروں میں سینکڑوں نوجوان انتہا پسندی کے عفریت کا شکار ۔ "اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان" ۔ اِس طرف کیسے ۔ کیوں راغب ہوئے ؟ ہم یا آپ غافل نہیں ۔ جرائم کی شرح کا بڑھنا بھی سمجھ میں آتا ہے ۔ایک سروے کے مطابق ہر سال 30"لاکھ " نوجوان نوکری ڈھونڈنے کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں ۔منڈی اسلئیے لکھا کہ سبھی کچھ انتشار کی کیفیت میں ہے ۔ نظم و ضبط تو بہت دُور کی بات ہے منصوبہ بندی ۔ سوچ بچار کی فضا ہی نہیں ۔ جان چُھڑوانے کے لیے سادہ "B-A" کو چار سالہ پروگرام میں بدل دیا ۔ بھئی بندوبست بس کی بات نہیں تو فنی تعلیم عام کرنے پر سوچیں ۔ کئی ادوار بُھگتانے کے باوجود معاملات دگرگوں ہیں ۔ انرجی بحران ہر اگلے سال ختم ہونے کی نوید سنائی تو دیتی ہے مگر عمل نظر نہیں آتا ۔ ہر دوسرے دن "چائنا ۔ ترکی" جانے کے باوجود نہ تمام سٹرکیں بن سکی ہیں اور نہ ہی کُوڑا کرکٹ کے ڈھیر غائب ہوئے ۔ بے شک پاکستان چین عوامی خوشحالی کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہیں پر خوشحالی کی بڑی لہریں نہ سہی ایک ہلکی سی موج ہی سر اُٹھاتی دِکھائی تو دے ۔ قوم کا مستقبل ۔ اثاثہ خطرے میں ہے ۔سٹرکوں ۔ موٹر وے کے ساتھ صنعتی علاقے بسانے کے جو منصوبہ جات تھے وہ کیوں نہیں شروع ہوسکے ۔ جس کے گھر میں فاقے راج کرنے لگیں اُنھوں نے کہیں تو پناہ ڈھونڈنی تھی ۔ پڑھنے کے باوجود روز گار ناپید ۔ شدید مایوسی نے جرائم + منشیات کی راہ لی وہاں تنک دستی ۔ معاشی پستی نے انتہا پسندی کو چُن لیا تو قصور وار کون؟ریاست "ماں "ہے ۔ جب ماں ہی سوتیلی بن جائے تو پھر بچوں نے باغی بننا تھا ۔ نئی صنعت کاری کی طرف تاجر کیوں دھیان دیں جب اُن کو یقین ہے کہ قدم قدم پر رکاوٹیں ۔ سرکاری بندشیں پیچھا کرتی ہیں ۔" بندے" کی جان نچوڑ لیتی ہیں ۔ ویسے بھی پہلے سے موجود فیکٹریاں ۔ کارخانے انرجی بحران کے ہاتھوں عالمِ نزاع میں ہیں ۔
ہے تلخ ۔ پر سچ ہے ۔ مکمل غیر جانبدار سچ ۔ کہ" سیاسی قیادت "سرتاپا کرپشن میں غوطہ زن ہے ۔" چور چور کا ہاتھ نہیں کاٹتا" ۔ تقریروں سے صفحات سیاہ ضرور ہوتے ہیں ۔ اخبار کی جگہیں بھر جاتی ہیں مگر "معدے" خالی رہتے ہیں ۔" بھوکے تن" نے ہر طرف لالچی ۔ طلب بھری نظروں سے دیکھنا ہے ایسے میں اگر کوئی اُن کو چند نوالے کِھلا دے ۔ مہنگی تعلیم کے اخراجات ادا کر دے تو محب وطن ۔ متعدل ۔ لبرل ۔ انتہا پسند کی تفریق بھک سے اُڑ جاتی ہے حکمرانی تقریروں ۔ وعدوں کی طرح ۔
"یوتھ بینک"
پہلے بھی تجویز دی تھی اب پھر دوہرا رہے ہیں کہ حکومت قومی سطح اور صوبائی اکائیوں میں یوتھ بینک قائم کرے ۔ ان بینکوں کا انتظام و انصرام وہ لاکھوں بچے ۔ بچیاں سنبھالیں جو بے روز گار ہیں ۔ ان بینکوں میں صرف نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے ۔ اِس کے سرمائے سے ہر سال مقررہ تعلیم مکمل کرنے والے نوجوانوں کو نوکری کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔ بینک کا نام "یوتھ بینک" رکھا جائے ۔ ملک گیر سطح پر اِس کی شاخیں قائم کی جائیں ۔ ہر علاقے میں قائم ہونے والی برانچ میں مقامی نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے ۔ حکومت اِس سارے عمل کو سیاسی یا انتظامی اہلکاروں ۔ مافیا کی پہنچ ۔ گرفت سے پاک رکھ کر عمل کرے تو "شاہراتی ترقی "سے زیادہ فوائد ۔ مفید اثرات مرتب ہوں گے ۔
"بنام وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف صاحب" جناب" وزیر اعلیٰ صاحب" ۔ شک نہیں سی پیک کے فوائد ۔ ترقی کے ثمرات سے پوری دنیا باعلم اور مستفید ہو رہی ہے مگر ہمارے اِدھر صورتحال بہت کچھ درست ہونے کا تقاضا کر رہی ہے ۔ بے روز گاری کے عفریت کے نقصانات ۔ انرجی بحران کے خساے کی انگنت کہانیوں سے ہٹ کر ۔ دُکھ ہے بہت زیادہ دُکھ کہ پہلے سے برسر روزگار جب مہینوں" اُجرت "کی وصولی سے محروم رہیں ۔ "ٹیچرز فنڈ "سے اُن کا شاید مسئلہ حل ہو جائے مگر ڈاکٹرز ۔ وُکلاء۔ سرکاری ملازمین کی طرح ہر کوئی سٹرکوں پر آنے کی تاب بھی نہیں رکھتا ۔ نوکری سے نکالنے کا خوف مارے ڈالتا ہے ۔ "سپیڈو بس" کے ڈرائیورز 2" ماہ "سے تنخواہ کے لیے رُل رہے ہیں ۔ آپ کے کھانا فراہم کرنے کا حکم بھی تنخواہوں کے ساتھ معلق ہے ۔ خواتین ہماری کُل آبادی کا 10" کروڑ "حصہ ۔ "پنجاب لینڈ ریکارڈز اتھارٹی" میں خواتین آفیسرز بھرتی ہونے والی خواتین کو رہائش ۔ تحفظ اور دیگر سہولیات کے بغیر دُور دراز علاقوں میں بجھوا دیا گیا ۔ موقف جاننے پر بتایا گیا کہ تربیت واسطے ہوا مگر حقائق کچھ اور ہیں ۔ ہر "بندے ۔ بندی "کے پاس سفارش نہیں ہوتی ۔سفارش والے شکایت کہاں کرتے ہیں ۔ حقدار کو حق نہ ملے تو احتجاج کی راہ پاتا ہے ۔ 64" کالجز "میں نچلے ستاف کے لیے انٹرویو کرنے کے بعد سارا عمل" زیرو"۔" پرنسپلز" کو سفارشی فہرست تھما کر عمل درآمد کا حکم ۔ نہ ماننے والے دوہرا عذاب بُھگت رہے ہیں ۔ اِس طرف بھی توجہ فرمائیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024