پتہ نہیں لکشمی سی پیک میں کیا بھید ہے کہ لوگ اس کے حوالے سے دن بدن فکرمند ہوتے جارہے ہیں اور حکمران ہیں کہ اس حوالے سے دن بدن شکرمند ہوتے جارہے ہیں؟ اس سونے کی سڑک کے بارے میں سوچیں تو بہت سی نئی سوچیں سراٹھا لیتی ہیں۔ مثلاً چین میں سی پیک سے متعلق اپنے حالیہ خطاب کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ’’سرحدی کشیدگی کم نہ ہوئی تو ترقی خواب بن جائے گی‘‘۔ اس بیان کو سطحی انداز میں پڑھیں تو لگتا ہے کہ یہ بھارت کو نصیحت کی گئی ہے لیکن اس کا مائیکرو تجزیہ کریں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرحدوں پر امن نہ ہونے کی صورت میں بھارت کی کون سی ترقی خواب ہو جائے گی؟
غور کریں تو بھارت بہت پہلے سے ہی معاشی ترقی کی ڈگر پر رواں دواں ہے۔ یہاں تک کہ افرادی وسائل کے باعث بھارت کی معاشی ترقی چین سمیت بہت سے بڑے ملکوں کے لئے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ دوسری طرف پاکستان سی پیک اور دیگر معاشی پالیسیوں کی وجہ سے اب ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے جس کے لئے امن بہت ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرحدی کشیدگی کم نہ ہونے سے بھارت سے زیادہ پاکستان کے لئے ترقی ایک خواب بن سکتی ہے۔ تو کیا یہ سوچنا درست ہوگا کہ وزیراعظم نواز شریف نے دانائی کی یہ بات بھارت سے زیادہ اپنے اداروں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے؟
وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال کو لیجئے۔ وہ بہت پڑھے لکھے اور دانا آدمی ہیں۔ انہوں نے سی پیک کے بارے میں روزنامہ ڈان کے حالیہ انکشافات کو ڈان لیکس ٹو کہہ کر مسترد کردیا ہے۔ احسن اقبال جمہوریت اور پارلیمنٹ کی آزادی اور بالادستی پر یقین رکھنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ آئین پاکستان کے تحت جمہوریت اور پارلیمنٹ سیاسی جماعتوں اور جماعتی انتخابات کے بعد وجود میں آتی ہیں۔ پروفیسر احسن اقبال صاحب کی والدہ محترمہ آپا نصار فاطمہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی گود میں پیدا ہونے والی غیرجماعتی اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر ایم این اے بنی تھیں۔
گویا محترم وزیر موصوف اپنی والدہ کے سیاسی نظریات سے انحراف کرگئے ہیں کیونکہ مارشل لاء یا غیرجماعتی انتخابات آئین پاکستان 1973ء کی جمہوریت اور پارلیمنٹ کے فارمولے میں فٹ نہیں ہوتے۔ پروفیسر احسن اقبال نے سیاست کو خدمت کا سنہرا نام دے کر اپنی اولاد کو بھی سیاست دان بناکر گولڈن پیشے سے جوڑنے کی آرزو کی ہے۔ اس معصوم آرزو کی تکمیل میں وہ اپنے صاحبزادے احمد اقبال چوہدری کے ضلع کونسل نارووال کا چیئرمین منتخب ہونے پر خوش ہیں۔ پروفیسر صاحب سی پیک کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے روحِ رواں ہیں۔ ان کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔
اگر مستقبل میں ان کے صاحبزادے اپنی موروثی روایت قائم رکھتے ہوئے ن لیگ کی مخالفت میں چلے گئے تو لازم ہے کہ وہ سی پیک پر بھی اعتراضات اٹھائیں۔ ایسی صورت میں ان لوگوں کا کیا ہوگا جو احسن اقبال کے کہنے پر سی پیک کے لئے سر دھن رہے ہیں؟ بالکل ایسے ہی جیسے 1985ء میں مارشل لاء کی اولاد غیرجماعتی انتخابات کا محترمہ آپا نصار فاطمہ نے ساتھ دیا اور آپا کا احترام کرنے والے غیرجماعتی انتخابات پر سردھنتے تھے۔ محترم وزیراعظم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ انسانیت کے نئے دور کا آغاز ہے‘‘۔ نواز شریف کے انسانیت کے نئے دور کے آغاز والے اس فلسفے کی کچھ سمجھ نہیں آئی کیونکہ دنیا کی تاریخ اور فلسفے کی پہلی کتاب سے لے کر آج تک شائع ہونے والی سب کتابوں میں انسانیت کے دور کی تشریح سرمایہ کاری سے جڑی ہوئی نہیں ہے بلکہ انسانیت کا دور تعلیم، صحت، ثقافت، اخلاقیات اور ادب وغیرہ سے تعلق رکھتا ہے۔
دوسری طرف سرمایہ کار ان فضول خرچیوں کو کبھی بھی برداشت نہیں کرتے۔ اُن کے نزدیک ایک روپیہ سو روپے میں بدلنا ضروری ہوتا ہے اور سو روپے ایک ہزار روپے میں تبدیل ہونا لازمی ہے۔ سی پیک میں صرف کاروبار کے لئے سرمایہ کاری کی چمک دکھائی جارہی ہے۔ یہ بتایا جارہا ہے کہ سی پیک سے ملک میں ریشمی شاہراہوں کا جال بچھ جائے گا، ریل کی پٹڑیاں چمکنے لگیں گی، بجلی کے کارخانے تاروں کی طرف بجلی اور آسمان کی طرف کالا دھواں چھوڑیں گے، دنیا بھر کے مدرشپ گوادر کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوں گے، اس کے علاوہ اور بہت سی سرمایہ کاری کی آماجگاہیں ہوں گی۔
یہ سب کچھ بتایا گیا مگر جو نہیں بتایا گیا وہ یہ کہ سی پیک کے صلے میں پاکستان کے اندر کتنے نئے ہسپتال قائم ہوں گے؟ کتنی نئی یونیورسٹیاں بنیں گی؟ کتنے نئے کالج اور سکول قائم ہوں گے؟ کتنے نوجوان طالبعلموں کو تحقیق اور تعلیم کے وظائف دیئے جائیں گے؟ کیا سی پیک کے بعد پاکستان کے نوجوان اعلیٰ محقق اور ریسرچر بن جائیں گے؟ کیا سی پیک کے بعد پاکستانی نوجوان مزدوری کی بجائے افسری کریں گے؟ کتنے صاف پانی کے پلانٹ لگیں گے؟ کتنی کلینیکل لیبارٹریاں قائم ہوں گی؟ کتنے میڈیکل ریسرچ سنٹر بن پائیں گے؟ اپنی صحت اور معاشرتی حالات بہتر بنانے کے لئے کتنی خواتین کے لئے سی پیک ویمن فنڈ کا اجراء کیا جائے گا؟ کیا سی پیک کے بعد کوئی بوڑھی عورت ہسپتال کے ٹھنڈے ننگے فرش پر تڑپ تڑپ کر دم نہیں توڑے گی؟ کیا سی پیک کے بعد کوئی عورت رکشے میں اپنے بچے کو جنم نہیں دے گی؟ کیا سی پیک کے بعد کسی نوجوان ملازمہ کی عزت نہیں لوٹی جائے گی؟ کیا سی پیک کے بعد کوئی طیبہ تشدد کیس نہیں ہوگا؟
نواز شریف نے جب 1992ء میں اسلام آباد لاہور موٹروے کا نقشہ منظور کیا تو انہوں نے اس بات کی خاص ہدایت کی کہ ہر ریسٹ ایریئے میں دیگر سہولتوں کے علاوہ مسافروں کی سہولت کے لئے صاف ستھرے واش رومز بنائے جائیں۔ کمرشل ریسٹ ایریئے میں واش رومز کے لئے اچھی خاصی جگہ چھوڑنا، اُن پر جدید واش رومز تعمیر کرنا اور ان کی صفائی کامسلسل خیال رکھنا سرمایہ کاری نہیں تھی بلکہ مسافروں کی فلاح و بہبود تھی۔ ایسے فلاحی کاموں کو نیا دور کہا جاسکتا ہے۔
اِسی ایم ٹو موٹروے کے کورین کمپنی کے ساتھ معاہدے میں لکھا گیا تھا کہ کمپنی غیرملکی ماہرین سے زیادہ پاکستانی انجینئرز اور ٹیکنیشنز کو ہی بھرتی کرے گی جبکہ کام مکمل ہونے کے بعد اس حوالے سے جو مشینری بھی درآمد ہوگی وہ پاکستان کو بلامعاوضہ دے دی جائے گی۔ کیا سی پیک کے حوالے سے بھی معاہدے میں ایسی کوئی شق ہے؟ ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر پر قبضہ کیا مگر انہوں نے بھی جدید تعلیم، صحت اور ثقافتی منصوبوں کو بہت فروغ دیا۔ کیا سی پیک کے بعد پاکستان میں راوی ہرطرف چَین ہی چَین لکھے گا یا ہرطرف میڈ فار چِین لکھے گا؟
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024