بسا اوقات روز مرہ زندگی میں دوران گفتگو بے ساختگی میں کچھ ایسی باتیں منہ سے نکل جاتی ہیں جو حروف میں تو مختصر اعداد پر مشتمل ہوتی ہیں مگر اپنے اندر وسیع مفاہیم چھپائے ہوئے آج ”اندر کا موسم“ ایسا تھا کہ بہت ساری باتیں بے طرح ذہن کے دریچے پر پھیلتی چلی گئیں۔ ایک دن کسی ”ہسپتال“ کے ”MS“ سے فون پر ضروری بات کے بعد یونہی پوچھ لیا کہ اور بتائیں آج کل ہسپتال کیسا چل رہا ہے تو ڈاکٹر انوار بگوی (معروف لکھاری) نے جواب دیا کہ جس طرح ”پاکستان“ چل رہا ہے تو میں ہنس پڑی مگر وہ ہنسی چند ثانیوں کے لیے تھی۔ فون بند کرتے ہی ملکی حالات پر دل دکھی ہو گیا شاید ہمیں دکھ کا احساس بند کرنے کے عمل پر زیادہ محسوس ہوتا ہے کسی سانحہ کےرونما ہونے پر کسی نام نہاد مافیا کی اپیل پر مارکیٹ بند ہونے پر یا پھر ٹیکس دینے سے انکاری” اشرافیہ“ کی دھونس سے ہڑتال کروانے پر نتیجہ پہلے سے نقصان میں چل رہے۔ عوامی باور چی خانوں میں دھواں مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ متذکرہ بالا بات نے برسوں کا فاصلہ طے کر لیا مگر حالات میں کوئی خوش آئند تبدیلی یا ترقی میں نمایاں۔ نظر آنی والی پیش رفت کو آنکھیں تلاش کر رہی ہیں۔ کچھ دن پہلے افطاری پر حسب عادت پوچھ لیا کہ رمضان المبارک کیسا گزر رہا ہے۔ خاتون نے ترت جواب دیا کہ بس جی لوڈ شیڈنگ اور بے قابو مہنگائی کےس ائے میں گزر رہا ہے۔ چند سال پہلے بھی ”رمضان المبارک“ میں مہنگائی اور بجلی کی بندش مقدس مہینے کی برکات چاٹ رہی تھیں اور آج بھی مارکیٹ پر گرانی اور گھروں میں لوڈ شیڈنگ راج کر رہی ہیں۔
صدر مشرف کا دور تھا۔ ایوان صدر کے پر تعیش ماحول کے قریب رہائش تھی۔ کچن کی کھڑکی اور بالکونی کا رخ مرکزی شاہراہ کی جانب تھا جو گاڑی یا سرکاری قافلہ گزرتا۔ ہر دو اطراف سے واضح طور پر دکھائی دیتا تھا۔ ان دنوں بڑے بڑے کانوائے گزرنے کی تاریخ کا آغاز تھا کیونکہ افغان جنگ اور 9/11 کی پوشیدہ کہانیاں عام ہونا شروع ہو چکی تھیں ایک دن بالکونی مےں بچے کھڑے تھے کہ بہت اہم شخصیت کا جلوس گزرا تو ہمارے باورچی کی آواز آئی کہ وہ دیکھو ”ڈاکو“ گزر رہے ہیں۔ تو ان فقروں نے نے وقتی مسکراہٹ پر مجبرو تو ضرور کیا مگر سوچنے لگے کہ اگر ناگزیر حکمرانوں کو عام آدمی کے خیالات کی بھنک اور قیادت سے متعلقہ گلی کوچے کی عوامی سچائی کا علم بروقت ہو جائے اور وہ اعتراف بھی کر لیں تو آج یہ حالات نہ ہوتے اور نہ ہی کوئی خود کو ناگزیر سمجھ کر اس دھرتی کی اینٹ سے اینٹ بجاتا۔ ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والے نے چند فقروں میں ہمارے قومی زعماءکے متعلق کتنی تلخ مگر مبنی برحقیقت بات کر ڈالی ایک طویل دور پہلے کی بات جبکہ ”برقی چینلز“ بھی ”۱۰۰ نمبر“ میں نہیں آئے تھے۔ کسی نہ کسی حد تک عوامی ناراضگی کا خوف اور مٹھی بھر چینلز کی موجودگی سے حکمران طبقہ خائف تھا۔ تب غبن، کرپشن کروڑوں میں تھی اور آج ”اربوں روپے“ میں۔ فرق بہت بڑھ گیا ہے جبکہ آج کوئی خوف زدہ بھی نہیں۔ سینکڑوں میگا سکینڈلز ہیں۔ ”۲۰۰ برقی چینلز“ پہلے سے زیادہ طاقتور مگر شاید اعتماد ، بھروسے کی قوت سے محروم کہ انگلیوں کا رخ بہت سوں کی طرف اٹھ رہا ہے۔
ہفتے میں دو مرتبہ جھگڑا روٹین میں شامل تھا مگر ایک دن شدت بڑھ گئی بیوی سے کہا کہ تم چالاکی، بہانوں سے میرے سارے پیسے نکلوا لیتی ہو۔ ایک روپیہ بھی جیب میں نہیں رہنے دیتی۔ اپنے ہی پیسے تم سے مانگتے ہوئے تمہارے برے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دن گزرتے گئے یکم تاریخ کو پوری تنخواہ لا کر بیوی کے ہاتھوں پر رکھ دی۔ وہ حیران، سراپا استفار کہ اتنا جھگڑنے کے بعد بھی اپنے پاس کچھ نہیں رکھا تو خوش دلی سے جواب ملا کہ غلام کو غلامی کی عادت پڑ گئی ہے۔ شاید ہماری عوام کو بھی ظلم، ذلت سہنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ وراثتی غلامی کے پنجرے میں مقید رہنے میں خوش ہے۔
کچھ خوشگوار اتفاقات، شاہراہ حیات پر سانسوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں کہ انسان بھول نہیں پاتا۔ لاہور سے اسلام آباد واپسی تھی۔ گھر جانے والی سڑک پر مڑے، سیدھا راستہ تھا، ایک دم دائیں طرف نظر پڑی۔ سوزوکی کار ہمارے ساتھ چل رہی تھی پچھلی سکرین پر لکھا تھا میں بڑی ہو کر پراڈو بنوں گی۔ اس وقت ہم پراڈو میں سوار تھے۔ بے حد خوشگوار احساس کہ خواہشات انسانی وجود میں محبوس نہیں رہ سکتیں۔ گو انسانی ہاتھوں سے ترا شیدہ فقرہ مگر عزم ہو تو ”چاغی“ کے پہاڑ سفید ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے المناک واقعات سے تھر تھر کانپتی ریاست لرزتی رٹ بحال ہو جاتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ ختم کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ ”وہ طبیعت نہیں جو مرض کو لا علاج کر دے۔“
”عام نماز“ بہت زیادہ وقت نہیں لیتی۔ مگر اس دن خلاف مسجد سے نلکنے میں دیر ہو گئی۔ باہر کھڑا شخص انتظار کی شدت کو سہہ رہا ہوتا ہے۔ تاخیر کا سبب پوچھا تو جواب دیا کہ ”مولوی“ پر منحصر تھا کہ کب سلام پھرواتا۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی کچھ ایسے ہی ”مولویوں“ کے گھیرے میں آ چکے ہیں۔ مسلسل حالت زکوع والی کیفیت ہے۔ بیٹھنے دیتے ہیں نہ کھڑے ہونے کی اجازت ہے۔ سیاست سے تجارت تک ایک ہی ”امام“ ایک مرتبہ نیت کیا باندھی کی حالت سجدہ میں سچا امام (حضرت قائداعظم) ساتھ چھوڑ گیا۔ تب سے اب تک کہانیاں ہی کہانیاں ہیں۔ کیا جھوٹ، کیا سچ؟؟ معلوم تو تب ہوگا جب ”خاندانی امام“ سلام پھروائیں گے۔ بہت برے تو نہیں البتہ لمحہ موجود سے کافی بہتر۔ وارے والے حالات تھے۔ بطور مہمان داتا کی نگری میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ضروری امور کے سلسلہ میں مارکیٹ کا تیسرا ، چوتھا چکر تھا اور تیسرا، چوتھا اتفاق کہ چند کوس چلنے کے بعد ڈرائیور بتاتا کہ پٹرول ختم ہے۔ اتنے دن سے پٹرول ڈلوا رہے تھے کہ اس دن جھنجھلا کر پرس کھولا اور یہ کہتے ہوئے کچھ روپے تھما دیئے کہ احتیاط سے ڈلوانا۔ گرے مت، ” چاچا ڈرائیور“ نے ۳۔۴ مرتبہ احتیاط سے ڈالنا۔ گرانا مت کی تکرار کی تو سیلز بوائے بھنا کر بولا کہ ”۵۰ روپے“ کا فیول ڈلوا رہے ہو اور شور اتنا اتنے میں سے کتنا گر سکتا ہے۔ ” ۱۰ برس“ پہلے ”۵۰ روپے“ بھی قدر رکھتے تھے۔ آج ”۱۰ روپے“ بھی اتنے ہی بے وقعت ہو چکے ہیں جتنے ”۲۰کروڑ عوام۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024