خدارا وہ سوچیں بلکہ خدا کا خوف کریں کیا حکمرانوں اور سیاستدانوں کو موت نہیں آنی ہے؟ خدا کوحساب نہیں دینا ہے؟ انہیں یہ دنیا چھوڑ کر نہیں جانا؟ آخرت میں اپنی کرنی نہیں بھرنی ہے؟ کیا یہ سب کے سب بزعم خود اِس حد تک غرور میں ہیں کہ رب العالمین کے حضور بھی جوابدہ نہیں ہوں گے؟ اِن کے ظلم و ستم سے کچلے ہوئے فاقہ کش عوام کہاں جائیں؟ کس سے دادرسی چاہیں؟ اگر ہر مزدور بلکہ ہر کام کرنے والے کی ماہوار تنخواہ ایک تولہ سونا کے برابر بھی کردی جائے تو بھی جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے۔ (آج کل ایک تولہ سونے کی قیمت پچاس ہزار روپے ہے) چہ جائیکہ کہ تین ہزار روپے کمانے والے مزدور کو مزدوری کا کام بھی ہر روز باقاعدگی سے میسر نہیں ہے۔ لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کی وجہ سے، عمارتیں بنانے کا کام، کارخانوں کا بلکہ تمام کاروباروں کا کام مکمل طور پر ٹھپ ہو چکا ہے۔ کئی کئی دن تک اُن کے گھر کا چولہا نہیں جلتا، صرف معصوم بچوں سمیت والدین کا بچا کھچا خون جلتا ہے۔ گندم کا دانہ نایاب ہو چکا ہے، ضروریات زندگی ندارد، اکثر گیس ختم ٹھنڈے توے پر روٹی سوکھ جاتی ہے (وہ بھی بشرطیکہ غریب لپ بھر آٹا میسر آجائے) پانی کی کمیابی کا وہ عالم ٹونٹیوں سے سوائے ہوا اور سیٹی کی آواز کے اور کچھ نہیں برآمد ہوتا۔ بظاہر بجلی، پانی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ محض تین الفاظ ہیں لیکن ان الفاظ کی خوفناک، دردناک اور جان لیوا نتائج کی فہرست اتنی طویل ہے کہ کاش حکمران طبقہ ان میں سے کسی ایک بھی آزمائش سے گزر جائے تو ان پر چودہ طبق روشن ہوجائیں۔
اِن چیدہ چیدہ آزمائشوں میں دراصل اتنا کچھ شامل ہے کہ جس نے پوری زندگی کو اپنی لپیٹ سمیٹ میں لے لیا ہے۔ خودکشی کرکے جان سے گزرنا، زندگی گزارنے کی طرح عام ہوگیا ہے۔ غریب اپنے بچے بیچ رہے ہیں، ان کو تعلیم دینے کا سوال ہی ختم ہوچکا ہے۔ گھروں میں پانی کی بوند نہیں ہے، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کپڑے دھونے والی مشینیں بند ہیں، چولہے ٹھنڈے ہیں، سی این جی کی بندش سے مسافروں سے سڑکیں بھری ہوئی ہیں، دفتروں میں قلم کا حل چلانا ناممکن، ملازم کیسے کاموں تک پہنچیں۔ چینی، آٹے کے نوالے کا دانہ میسر نہیں، زندگی ہر لمحہ کڑوی زہر ہوتی جارہی ہے۔ اکثر کارخانے بند، مزدور فارغ، صبح صبح کام پر نکلنے والے معصوم غریب مزدور بچوں سے لبِ سڑک مزدوروں کی آماجگاہیں بھری ہوئی، ٹھیکیداروں کا چہرہ نظر آنے کے انتظار میں پتھرائی ہوئی آنکھیں، ان کی کمائی لانے کی آس میں گھروں میں بیٹھی ہوئی بے بس مائوں کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں سرخ آنسو، کس کس کی کس کس بے بسی اور کس کس بے کسی کی تصویر کشی کی جائے؟ کئی گائوں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے طالب علموں کی تعلیم متاثر بلکہ ختم ہورہی ہے۔ مایوسی اور ٹینشن سے بچے بیمار ہورہے ہیں۔ ان تمام قباحتوں بلکہ قیامتوں کے باوجود دہشت گردی کی لعنت مستزاد ہے۔ کتنا عرصہ ڈرون حملوں نے پورے کے پورے وطن عزیز کے گرد خون کا سرخ حصار باندھے رکھا تھا۔ کوئی دن، کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا تھا کہ کوئی سرخ خبر نہ آتی ہو۔ یا میرے رب العالمین تو ہم پر رحم فرما۔ یہ ہم مسلمان خاص طور پر پاکستان کے سترہ کروڑ باسی کس آزمائش میں پھنس گئے ہیں؟ حکمرانو، سیانو بلکہ بے دردو کچھ خدا کا خوف کرو، قائد و اقبال کے خون پسینے کی عطا اس پاک وطن کی قدر کرو۔ اس کے ایک ایک ذرے پر ایک ایک آنکھ رکھ دو بلکہ اس کے ایک ایک ذرے پر اپنی تمام جانیں وار دو، غریب عوام تمہارے ساتھ کھڑے ہیں لیکن خدارا ان سے کھڑا ہونے کی طاقت مت چھینو، ان کو دانے پانی کی گھٹن دے دے کر بے موت اور بے وقت مت مارو، ان کے دکھوں اور غموں کا مداوا کرو، ان کو فاقہ کشی اور خودکشی سے بچانے پر اپنی ساری حکمرانی کا سارا زور لگا دو۔ تم میں سے جس مقام پر جو بھی بیٹھا ہے، ان ہی کی قربانیوں کے طفیل بیٹھا ہے۔ تم سب اپنے اکیلے اکیلے مقام پر کچھ بھی نہیں ہو۔ سو اس کے باوجود بھی جیسی زندگی وہ گزار رہے ہیں اس کے لئے بے حیائی بلکہ ایک بے حیا جرأت کی ضرورت ہے۔ خدا حفظ و امان میں رکھے۔ کس قدر دکھ کی بات ہے پاکستانی عوام کا یہ مقدر ہے وہ پورا دن اپنی ملکی وحشت گردی کا شکار رہیں یا پھر امریکی دہشت گردی میں مارے جائیں۔ نامعلوم پراسرار حملوں میں فنا ہوجائیں اور جو باقی ٹینشن زدہ بچ جائیں تو حکمران مہنگائی کی آڑ میں ان کے وجود کی لوڈشیڈنگ کردیں یا دوسرے الفاظ میں عملاً ان کو کہہ دیں کہ جائو ملک چھوڑ دو اب یہاں دہشت گرد ہی رہیں گے۔ بہرحال آخری بات یہ کہ حکمرانو! اگر وطن کے ساتھ وفادار نہیں ہو، حکومت نہیں چلا سکتے ہو تو پھر حکومت اور سیاست کیسی؟ غریب عوام اپنے مسائل خود ہی حل کرلینگے۔ شرط یہ ہے کہ ان کو ان کے اگلے پچھلے سارے حساب دے دو… دوسرے الفاظ میں ایماندارانہ، بے لوث قیادت اور حکومت دو یا کھرا حساب؟ ان میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرلو ورنہ یاد رکھو ان دونوں میں سے کوئی ایک فیصلہ بھی اگر عوام نے خود اپنے ہاتھوں کرلیا تو اس کے سیل بے امان کے سامنے رُک نہ سکو گے۔ تاریخ دان ان تمام ناگفتہ بہ حالات میں حسب سابق اپنا فیصلہ عوام کے حق میں لکھنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ (ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38