اس بات سے بھلا کسے انکار ہو سکتا ہے کہ پاکستان نے گذشتہ ستر برسوں میں بالعموم اور پچھلے ایک عشرے میں بالخصوص دہشتگردی کا قلع قمع کرنے میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا اور اس ضمن میں پاک دھرتی کے افسروں اور جوانوں کے علاوہ عام لوگوں نے بھی اس لعنت کے خاتمے کے لئے ناقابل فراموش حصہ ڈالا اور اپنی اس جُہدِ مسلسل میں قوم کے 70 ہزار سے زائد افراد نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ مبصرین کے مطابق یہ امر بے انتہا اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں پر افسروں اور جوانوں میں شہادت کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اوسطاً ہر 9 جوانوں کے ساتھ ایک افسر جامِ شہادت نوش کرتا ہے مگر اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ تاحال عالمی برادری کی جانب سے ان پاکستانی قربانیوں کا خاطر خواہ ڈھنگ سے اعتراف کسی بھی سطح پر نہیں کیا جا رہا اور ’’پاکستانی بیانیے‘‘ کو درخوراعتنا نہیں جانا جا رہا۔ ماہرین کے مطابق ایسے میں ’’پیغام پاکستان‘‘ کو روشنی کی نوید ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب کوئی قوم مسائل کے ایسے بھنور میں پھنس جائے، جن کا سرا ڈھونڈنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے اور ہر سعی معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھائو پیدا کرنے لگے تو ایسے میں اس قوم کے اہل فکر سنجیدگی سے سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں کیونکہ دوراندیش قوموںکا شیوہ ہے کہ وہ اپنے مسائل سے نمٹنے کیلئے جب کمر بستہ ہوتی ہیں تو ان عوامل کا جائزہ لیتی ہیں جن کی وجہ سے وہ مسائل کا شکار ہوئیںکیونکہ اصل میں کسی مسئلے کو تب ہی حل کر پانا ممکن ہوتا ہے جب اس کے اسباب کا جائزہ لیا جائے۔
اہل دانش کے مطابق افسوس کہ بیتی چند صدیوں میں صنعتی انقلاب کی دستک کو اسلامی ممالک نے نہیں سمجھا مگر مغربی ممالک نے اسے سمجھ کر ترقی کی منازل طے کر کے قوموں کی برادری میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ لیکن ’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق اب وطنِ عزیز میں بھی اس ضمن میں ٹھوس پیش رفت ہو رہی ہے۔
تبھی تو صدر پاکستان ممنون حسین نے کہا ہے کہ ’’پیغام پاکستان‘‘ فتویٰ یہ ثابت کرتا ہے کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پاکستانی قوم سنجیدہ ہے۔واضح رہے کہ 16 جنوری کو ایوان صدر میں ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی جس میں 1800 سے زائد جید علمائے کرام نے متفقہ فتویٰ جاری کیا جس کی رو سے ’’دہشتگردی، خودکش حملے اور نفاذ شریعت کے نام پر مسلح جدوجہد حرام قرار پائی‘‘۔ ماہرین نے اس معاملے کی مزید تشریح کرتے کہا ہے کہ ’’پیغام پاکستان‘‘ کے نام سے مرتب کیے جانے والے فتوے میں تمام دینی مکاتب فکر نے قرآن و سنت کی روشنی میں باہمی اتفاق رائے سے ایک بے نظیر دستاویز مرتب کی ہے جس کے ذریعہ فرقہ واریت اور دین کو فساد فی الارض کے لئے استعمال کرنے کی دلیل یکسر رد ہو جاتی ہے اور اسلام کا حقیقی چہرہ سامنے آتا ہے۔امید ہے کہ یہ بیانیہ قومی شناخت کا معتبر حصہ بن جائے گا کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دہشتگردی اور اسلام دو بالکل متضاد چیزیں ہیں اور ان دونوں کو کسی بھی طور آپس میں گڈ مڈ نہیں کیا جا سکتا۔
بہرکیف اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت کو انتہائی مثبت قرار دیا جا سکتا ہے، ایسے میں میڈیا، سول سوسائٹی اور وطن عزیز کے دیگر سبھی حلقوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی، سفارتی اور علمی مباحثوں میں اس ’’پاکستانی بیانیے‘‘ کی اہمیت اور افادیت کو ہر سطح پر اجاگر کریں کیونکہ اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ غالباً پہلی مرتبہ علمی اور عملی سطح پر خاصی عرق ریزی کے بعد بڑی خوبصورتی سے اپنے موقف کو ’’پیغام پاکستان‘‘ میں سمویا گیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ وطن عزیز کے مخالفین پاکستان کے خلاف مختلف شکلوں میں جو ہمہ جہتی سازشیں جاری رکھے ہوئے ہیں ان کے سد باب میں یہ حالیہ پیش رفت معاون ثابت ہو گی (ان شاء اللہ)