پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی جانب سے وزیر اعظم کے بیانات میں تضاد پر جمع کرائی گئی تحریک استحقاق پر سپیکر قومی اسمبلی نے رولنگ دی کہ یہ معاملہ” عدالت “میں ہے اس لیے تحریک پیش کرنے کی منظوری نہیں دی جا سکتی۔ سپیکر قومی اسمبلی نے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کی اجازت دی۔خورشید شاہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ پارلیمنٹ” سپریم “ہے اور عدالت” مقدس‘ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایوان میں ہمارے ایک ایک لفظ کی اہمیت ہے۔ ایک بار غلطی مان لیں ہم معاف کر دیں گے۔
'خورشید شاہ کی تقریر کے دوران وزیر ریلوے سعد رفیق نے کئی بار ان کو ٹوکا جس پر سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے سعد رفیق کو ایسا کرنے سے منع کیا۔ تاہم اسمبلی میں” شور شرابے“ کا آغاز اس وقت ہوا جب خورشید شاہ نے اپنی تقریر کے بعد سپیکر سے تحریک استحقاق پیش کرنے کی اجازت مانگی۔ اس پر سپیکر نے کہا کہ وہ اپنے چیمبر میں پہلے ہی سے ”رولنگ “دے چکے ہیں کہ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے اس پر بحث نہیں ہو گی۔ سپیکر کی جانب سے اس جواب پر خورشید شاہ نے کہا 'میںنے اپنی تقریر میں تحریک استحقاق کی وجوہات بیان کی ہیں۔ اجازت نہ دینا ”زیادتی “ہے۔ سپیکر نے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی جانب سے جمع کروائی گئی تحریک استحقاق بھی مسترد کر دی۔ پی ٹی آئی کو تین سال برباد کرنے کے بعد خیال آیا کہ اصل فورم سڑکیں چوک اور چوراہے نہیں بلکہ اسمبلی ہے سیاستدانوں کو اپنی تمام توانائیاں اسمبلی کے فورم پر خرچ کرنی چاہیں اس بات سے قطع نظر کہ دھاندلی ہوئی تھی یا نہیں ؟ ووٹ جعلی ڈالے گئے یا نہیں ؟ اصل بات یہ تھی کہ عوام نے انھیں اپنے مسائل حل کرنے کے لیے اسمبلی پہنچایا تھا لیکن وہ کبھی استعفے کا ڈھونک رچاتے اور کبھی سول نافرمانی کا اعلان کرتے ۔ اسمبلیوں میں استعفے دینے کے باوجود تمام مراعات لیں اور ٹی اے ڈی اے بھی لیے لیکن عوام کے لیے رتی برابر بھی کام نہیں کیا ۔جناب والا ۔ آپ کو سڑکوں پر قوم کے بچوں اور بچیوں کو نچانے کے لیے ووٹ نہیں دیئے گئے تھے۔بلکہ عوام نے اپنے مسائل کے لیے آپ کو اسمبلی بھیجا تھا ۔آپ کا دھرنا دینا ”سیاسی غلطی“ تھی ، لاک ڈاﺅن کا اعلان بھی درست نہیں تھا ۔آپ کے بار بار اعلانات تبدیلی پر وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو پھر کہنے کا موقع ملے گا کہ عمران خان کا ”ٹولہ شورو و غل“ ڈالنے آیا تھاپی ٹی آئی نے بدتمیزی اور بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا جو ان کا ”طرہ امتیاز“ ہے۔
عمران خان” گرگٹ“ کی طرح رنگ بدلتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا مطالبہ تھا کا پاناما معاملے پر کمیشن بننا چاہیے۔ اب جب کمیشن بننے جا رہا ہے تو بائیکاٹ کا کہا جا رہا ہے۔سونامی کے بعد” جوشیلے“ تجزیہ نگاروں نے کہا تھا سونامی آیا یا نہیں، پارٹی نے کافی اچھی کارکردگی دکھائی ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں ملک کی دوسری سب سے زیادہ ووٹ لینے والی پارٹی بن گئی اس کی ایک خاص حیثیت بن گئی ہے اور اس کا مستقبل روشن ہے۔
میں اس بات سے خاصی حد تک متفق بھی ہوں لیکن میرے لئے جو بات ”مایوس کن“ ہے، وہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی وہ” تبدیلی “نہیں لا سکی جس کا اس نے ”وعدہ“ کیا تھا، اور حد یہ کہ کئی چہرے تک نہیں ”بدلے “ہیں۔ یہ بھی اسی” دھینگا مشتی “میں شامل ہو گئی ہے اور دوسروں کے جیسی بن گئی ہے ،مجھے ڈر ہے کہ الیکشن تک، اس میں اور دوسروں میں” امتیاز“ کرنا مشکل ہو جائے گا۔
پی پی پی اور پی ایم ایل این والوں کی طرح، پی ٹی آئی والے بھی اپنی پارٹی کے وہ” عقیدت مند“ ہیں، پیرو کار ہیں، اور مرید ہیں یہ ایک پارٹی کارکن ہونے کے” متضاد“ ہے۔وہ اپنی جماعت کی پالیسی، بیانات اور مقاصد پر تنقید نہیں کرتے اپنی پارٹی پالیسی پر سوال اٹھانا ہمارے” سیاسی کلچر“ میں ایک گناہ کی طرح سمجھا جاتا ہے، پی ٹی آئی نے اسے تبدیل نہیں کیا،ایسے رویے کو بغاوت سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ جاگیر دارانہ ذہنیت کی عکاس ہے کارکنان اپنی جماعت کے ساتھیوں اور مخالفین سے اہم معاملات پر” گفت و شنید“ کرنے چاہیے لیکن کارکنان خود ہی اپنا دفاع کرنے اور اپنے اقدامات کو واجب ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اپنے پارٹی لیڈروں کی حرکتوں اور باتوں پر پردہ ڈالتے ہیں،اس میں کوئی دو رائے نہیں سیاستدان، ایسے بے عقل پیروکاروں کے غول پسند کرتے ہیں وہ اپنی پارٹی میں تنقید کرنے والوں کو جگہ نہیں لینے دیتے اور نا ہی اپنی پارٹی میں ایسا نظام یا طریقہ کار نافذ کرتے ہیں جس میں پارٹی پالیسیوں پر کی جانے والی تنقید پر غور کیا جائے ۔پی ٹی آئی بھی اس سے مختلف نہیں ہے ،پاکستانی جماعتوں کا پسندیدہ مشغلہ اسے سازش قرار دینا ہے، جو زیادہ تر غیر ملکی طاقتوں کا شاخسانہ ہوتی ہے ،یہ چیز جماعتی دانشوارانہ گفت و شنید کے فقدان کی عکاس ہے ´ان کے پاس نہ تو بصیرت ہے اور نہ ہی ان کے پاس ان مشکل سوالوں کے مناسب جوابات ہیں جو موجود سیاسی حالات میں سامنے آ نے چاہیں۔
نظریہ سازش کو کوئی بھی آسانی سے قبول کر لیتا ہے ´وہ اس کا الزام اپنی وسعت نظر سے دور موجود طاقتوں پر لگا دیتے ہیں، اور یہ جن سے نجات ہمارے بس کی بات نہیں۔ یعنی سوائے ان بری طاقتوں پر غرانے بہت کم ہی کچھ کی جا سکتا ہے،اب پی ٹی آئی اگر اسمبلی میں آئی ہے تو اسے جم کر وہاں کام کرنا چاہیے ۔ایک سال کے عرصے میں اسے اب اسمبلی کا بائیخاٹ نہیں کرنا چاہیے بلکہ الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ، تاکہ دھاندلی نہ ہو سکے ۔ خیبر پی کے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے ۔ اسی میں اس کی کامیابی” مضمر “ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024