اکال تخت کے سابقہ جتھے دار گیانی پورن سنگھ نے بجا طور پرکہا ہے کہ سکھ قوم کو کسی رد عمل کا مظاہرہ کرنے کی بجائے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے اور دہلی کے حکمرانوں نے اپنی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس طرح ہندوﺅں اور سکھوں کے مابین نیا ”خونی رشتہ“ قائم کیا ہے۔ اس کا نتیجہ ”تاریخ“ اور ”ست سری اکال واہگرو“ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوﺅں جنونیوں کی ذہنیت اور سکھوں کے بارے میں ان کے معاندانہ عزائم کے بارے میں بابا گرو نانک دیو جی بہت پہلے کہہ گئے تھے کہ نال کراڑاں دوستی ہائے ہائے یعنی ہندوﺅں سے دوستی کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوتا اور ہمیشہ برائی پیدا کرتا ہے۔ واضح رہے کہ سکھ مذہب کے صحیفے ”جپ جی صاحب“ میں گرونانک جی کا یہ قول صاف لفظوں میں موجود ہے۔
سکھ دانشور اس امر کا بر ملا اظہار کر تے آئے ہیں کہ بھارت کی آزادی کے تھوڑے عرصے بعد ہی سکھ خواص و عوام کو احساس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ انھوں نے کانگرسی رہنماﺅں کی باتوںکے بہکاﺅے میں اگر چہ ہندوستان میں شمولیت تو اختیار لی مگر سکھ قوم کا مستقبل کسی بھی حوالے سے بھارت میں محفوظ نہیں لہذا انھوں نے مختلف سطحوں پر پہلے الگ پنجابی صوبے کے قیام اور بعد میں بھارت سے آزادی کی تحریک شروع کر دی اور یہ تحریک کسی فرد واحد یا گروہ کی جانب سے نہیں بلکہ سکھوں کی واحد نمائندہ تنظیم ” گرودوارا پربندھک کمیٹی “ اور اس کے سیاسی ونگ ” اکالی دل “ کے زیر سایہ شروع ہوئی ۔
علیحدہ سکھ ریاست کے مطالبے کو بھلا دہلی کے ہندو حکمران کیسے گوارا کر سکتے تھے ۔ اس لئے جون 1984 کے پہلے ہفتے میں سکھ مذہب کے مقدس ترین مقام ”دربار صاحب امرتسر“ پر بھارتی فوج نے باقاعدہ حملہ کر کے ہزاروں سکھ تہہ تیغ کر دیئے۔ بھارت فوج کے اس بزدلانہ اور سفاکانہ اقدام پر بھارت ہی میں نہیں بلکہ بیرونی دنیا میں مقیم لاکھوں سکھوں میں شدید رد عمل پیدا ہوا اور اس سنگین صورتحال کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ چھ جون 1984 کے آپریشن بلیو سٹار کے محض پانچ ماہ کے اندر ہی اکیس اکتوبر 1984 کو اس وقت کی بھارت کی وزیر اعظم ”اندرا گاندھی“ کو اپنے دو سکھ محافظوں ”ست ونت سنگھ“ اور ”بے انت سنگھ“ کی گولیوں کا نشانہ بن کے اس دنیا سے رخصت ہونا پڑا ۔ جس کے فوراً بعد بھارت کے طول و عرض میں سکھ کش فسادات شروع ہو گئے اور محض تین روز کے اندر چھ ہزار سے زائد سکھ آبادی کو ہندو اکثریت کے ہاتھوں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے یہ سب کچھ یقینا تاریخ کا ایک المناک باب ہے اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ ہزاروں سکھ خواتین اور بچوں کے قتل کے جرم میں پورے بھارت میں کسی ایک ہندو کو ایک دن کی بھی سزا نہیں ہوئی اور یہ سب کچھ غالباً دنیا کی سب سے بڑی برہمنی جمہوریت میں ہی ممکن ہے۔
البتہ اس کے بعد مشرقی پنجاب میں ہندوﺅں کے آلہ کار پولیس چیف ”کنور پال سنگھ گل“ کے ہاتھوں بے گناہ سکھوں کو ختم کرنے کے بعد بھارت کی ہندو قیادت نے بظاہر اطمینان کا سانس لیا تھا اور یہ سمجھ لیا گیا کہ ہندو بربریت کی بنیاد پر سکھوں کی مذہبی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو افراتفری کے ایسے مہیب غار میں دھکیلا جا چکا ہے جہاں سے اب کوئی حریت پسند تحریک بر آمد نہیں ہو گی ۔ مگر کچھ عرصہ قبل ” سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ“ کے جنم دن کی تقریبات میں جس پیمانے پر سکھ نوجوانوں نے شرکت کی اور بھنڈرانوالہ کو ”سن آف دی سینچری“ قرار دیا، اس نے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دیں ۔ جس سے بوکھلا کر RSS کے سابقہ چیف ”سُودرشن“ اور حالیہ سربراہ ”موہن بھاگوت“ نے برملا کہا کہ ہندوﺅں اور غیر ہندوﺅں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اس امر کی غماز ہے کہ ہندوﺅں اور دیگر تمام بھارتی اقلیتوں کے مابین ”مہا بھارت“ نا گزیر ہو چکی ہے اور اس مہا بھارت میں مسلمانوں، سکھوںِ، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کا کچلا جانا تقریباً طے شدہ ہے۔
ایسی صورتحال میں بعض غیر جانبدار تجزیہ نگاروں نے رائے ظاہر کی تھی کہ سکھ سیاست جس نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے وہاں کسی نئے بھنڈرانوالہ کا ظہور ہو سکتا ہے بعض حلقوں میں ”سمرن جیت سنگھ مان“ اور ”بھائی پورن سنگھ“ کو مستقبل کا بھنڈرانوالہ قرار دیا جاتا ہے اکثر سکھ دانشور اس امر کا کھلے عام اظہار کرتے ہیں کہ جون 1984 میں بھارتی حکومت نے اندرا گاندھی کی زیر قیادت جس طرح دربار صاحب امرتسر کا تقدس پا مال کیا تھا اس ضمن میں سکھ دھرم کے دسویں اور آخری گرو ”گوبند سنگھ “ تقریباً چار سو سال پہلے پیش گوئی کر گئے تھے ۔
قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لئے مذکورہ پیش گوئی کا تذکرہ یہاں بے محل نہیں ہو گا یہ پیش گوئی سکھ عوام میں زبان زدِ عام ہے۔ روایت کے مطابق” گرو گوبند سنگھ “ فرمایا کرتے تھے کہ ”سکھ پنتھ اور قوم پر مصیبت کا ایسا وقت آئے گا جب در بار صاحب امرتسر کا مقدس تالاب سکھوں کے خون سے اتنا تربتر ہو گا کہ گھوڑے کے سم اس لہو میں ڈوب جائیں گے ۔ اس وقت ایک تریا ( چالاک عورت ) کا راج ہو گا لیکن یہ آزمائش سکھوں کے لئے وقتی ہو گی حتمی اور فیصلہ کن مستقبل سکھوں کا ہی ہو گا تب پڑوس کے توحید پرست ( مسلمان ) مذہبی سکھوں کی مدد کریں گے اور نتیجتاً خالصہ راج دہلی میں قائم ہو جائے گا “ ۔ گرو گوبند سکھ کی اس پیشین گوئی کے اصل الفاظ درج ذیل ہیں ۔
” جن کے کارن پنتھ کا ہو پرکاش اوٹ تھکاون جائیں گے سنگھ انہاں کے پاس ورپ ملک کی مان کے کھاویں گے۔ آپ تب کروپ ہوے پرماتما، آپ جھگڑا چلے ہرمندر ( در بار صاحب ) میں آن تبھی ایک خالصہ پرگٹ ہوے ، قلعہ بنا دے ہر مندر صاحب کو آن راج چلیسی رنڈی کا فوج چڑھے ہر مندر میں آن اتنا خون بہاوے، گھوڑے کا کھر خون میں بھج جاوے، ماجھا، مالوہ ، دوابہ بس دکھی ہون دیہات تبھی خالصہ ” اٹاری “ میں سے چڑھ آوے ، امرتسر پہنچ اتنا خون بہاوے، ڈھائی لاکھ خالصہ شہید ہووے سترہ لاکھ ہندو مر جاوے تبھی ، روس ، چین ہند میں چڑھ آوے، تبھی تخت دہلی پر بہہ جاوے گرو کی فوج ، بڑی کرے گی موج۔ “ ننگا بھوکا کوئی نہ رہوے ، لنگر گرو کا کھاوے ، واہ گروہ جی کا خالصہ ، واہ گرو جی کی فتح “ گورو گوبندھ سنگھ کی پیشین گوئی کا پہلا حصہ تو غالباً پورا ہو چکا ، ہندﺅں کے ہاتھوں ہزاروں سکھوں نے جان دے کر گویا ان کے ساتھ” خونی رشتہ “ تو قائم کر ہی لیا ہے ، اب بھائی رنجیت سنگھ ، سمرن جیت سنگھ مان ، گیانی پورن سنگھ ، یا کسی دوسرے کی زیر قیادت ہندوﺅں اور سکھوں کے مابین قائم ہوا یہ نیا ”خونی رشتہ“ کیا رنگ لاتا ہے۔ اس کا صحیح فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا مگر یہ تقریباً طے ہے کہ بھارت سرکار اور سکھوں کے مابین پھر نیا محاذ کھلنے والا ہے ۔ یہ اندازے اور پیش گوئیاں کہاں تک صحیح یا غلط ثابت ہوں گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024