ڈرائیور نے دروازہ زور زور سے بجایا ، اب سیکورٹی گارڈ شور سن کر کرسی سے نیچے گرنے لگا لیکن کسی بنا پر ہی گارڈ رکھا گیا ہوگا اسی لئے، فورا ہی ہم پر نظر پڑگئی ،اپنے آپ کو سنبھالا اور جب اس نے دروازہ کھولا تو بالکل چوکس تھا ۔جیسے تھوڑی دیر پہلے جو سو رہا تھا وہ کوئی اور تھا ۔مینجر بہرحال بے زار انگڑائیاں نہ روک سکا ۔ مجھے اب کوئی اندازہ نہیں تھا کہ کانفرنس کے میزبان کہاں ہونگے اور مندوبین جو دنیا کے دوسرے ممالک سے یا جو کینڈا کے ہی ہیں کدھر کس کمرے میں ٹھہرے ہیں ۔ میں گیسٹ ہائوس نما ہوٹل کے تین ملازمین کے رحم و کرم جنہوں نے شائد نیند خراب کرنے کی میری سزا معاف نہیں کی تھی ،بے دلی سے مجھے کمرے میں پہنچایا۔آنتیں چار قل پڑھنے میں مصروف تھیں اور نیند کا شائبہ نہیں تھا ۔کمرے میں چھوڑ کر اٹینڈینٹ بھی غائب ہوگیا۔ مجھے کمرے میں گرمی محسوس ہوئی ۔ ایک سوراخ میں ہوٹل کے کارڈ گھسا رکھے تھے ۔ سوچا شائد اس پر کوئی نمبر ہو ۔ریسپیشن پر چائے کا نہ سہی اے سی چلانے کا ہی کہ دوں ۔ یا کوئی پنکھا کوئی استری فون چارجر کا converte، میری کتنی ضرورتیں میرے سامنے منہ پھاڑے کھڑی تھیں کیونکہ صبح ۰۱ بجے کانفرس اٹینڈ کرنا تھی ۔ اورمیں نے سوراخ سے کارڈ نکال لیا کہ شائد کوئی طلسمی اسم ہو اس پر اور میرے مسئلے ہوجائیں کیونکہ فون بھی بے کار پڑا تھا ۔ کارڈ نکالنے کی دیر تھی کہ کمرا اندھیرے میں ڈوب گیا ۔ ہیں ؟اتنا خوبصورت دبئی کے مقابلے کا ائیر پورٹ اور لوڈ شیڈنگ پاکستان کی طرح ۔اکیلی میں اور گھپ اندھیرا ۔ سارے منٖفی، مثبت جذبات اب صرف خوف میں تبدیل ہوچکے تھے ۔ پانچ منٹ تنہائی میں کپکپانے کے بعد ہمت کر کے کمرے سے نکلی ۔ مگر یہ کیا باہرتو ہر طرف روشنی ، پھر سے بہادر ہوگئی کلانچیں بھرتی سیڑھیوں سے ہی نیچے ریسپیشن پر جا پہنچی ۔ لابی پھرسے سویا ہوا محل بن چکی تھی۔ ہائے ان بے چاروں کو اٹھائوں یا نہ ؟ابھی اسی کشمکش میں تھی کہ مینجر کی آنکھ کھل گئی ۔ مجھے دیکھ کر بوکھلا کر سیدھا ہوا ۔ میں شرمندہ ہوں اس ٹائم تنگ کر رہی لیکن میرے کمرے کی لائٹ چلی گئی ہے ۔ اور میری کچھ اور بھی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں ہیں ۔ میرے موبائل کی بیٹری ٹوٹل ختم ہورہی ہے ، استری !!صبح کے لئے کپڑے استری کرنے ضروری ہیں ۔ اور ایک چائے کا کپ ۔میں نے ڈرتے ڈرتے ایک ہی سانس میں اپنی ضرورتوں کی لسٹ کہہ ڈالی ۔ مینجر نے لڑکے کو میرے ساتھ بھیجا، اس نے کہا لائٹ نہیں گئی یہ کارڈ جو آپ نے نکالے ہیں اس وجہ سے لائٹ چلی گئی ۔ مجھے نہیں پتہ تھا انڈیا نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ دیوار کے سوراخ میں کارڈ ڈالنے سے لائٹ آجاتی ہے ۔ اور نکالنے سے چلی جاتی ہے میں نے معذرت خواہانہ انداز سے اپنی جہالت کو تسلیم کیا ۔ باقی چیزیں صبح دیکھیں گے۔ یہ کہا ،جمائی لی اور دروازہ بند کر کے یہ جا وہ جا اس نے شاید میری جہالت کو معاف نہیں کیا تھا ۔سوئے ہوئے چند ہی گھنٹے ہوئے ہونگے کہ ناشتے کا سندیسہ آگیا۔ ڈائننگ ہال میں پہنچی تو کینیڈا سے تشریف لائے ہوئے ناظم الدین مقبول، ڈاکٹر تقی عابدی اور نومان بخاری موجود تھے۔ ڈاکٹر تقی نے دوسرے ممالک اور انڈیا کے دوسرے شہروں سے آئے ہوئے مندوبین سے مجھے متعارف کرویا۔ ڈاکٹر تقی عابدی کی اردو زبان سے محبت دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ڈاکٹر مریض کی نبض میں بھی اردو کو ہی ڈھونڈتے ہونگے۔ ڈاکٹر صاحب بہت نفیس اور عمدہ انسان ہیں اس لئے انہوں نے اتنی ہی نفاست اور عمدگی سے میرا تعارف کم اور تعریف زیادہ کی کہ مجھے بولنا پڑ گیا کہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔ مگر وہاں موجود سب لوگوں نے میری بات کو غیر سنجیدہ لیا اور ڈاکٹر صاحب کی بات پر انکے کسی ڈاکٹری نسخے کی طرح یقین کیا اور مجھے بتانے دیجئے کہ وہاں اتنی عزت ملی کہ میں لاکھ چاہوں بھی تو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔علی گڑھ کے پروفیسر صغیر افراہیم اور ان کی بیگم ڈاکٹر سیما صغیر اور پروفیسر ابو الکلام قاسمی شکاگو کے امین حیدر، سری نگر کے پروفیسر زمان آزردہ، فیصل آباد کے پروفیسر آصف اعوان، لاہور کے مرزا حامد بیگ ، جاپان کے ناصر ناکاگاوا، پاکستان کے جمیل اصغر، ایران کی وفا یزدان، فرزانہ اعظم لطفی اور پروفیسر علی بیات، ازبکستان کے ڈاکٹر سراج دین، میروت کے ڈاکٹر اسلم، مصر کے ڈاکٹر گلال ،مارششس کے عنایت حسین اور جرمنی کے اقبال حیدر، ممبئی کے شاہد لطیف، ترکی کے ڈاکٹر خلیل طوق اور پروفیسر مظفر شہ میری، علی فاطمی اور کئی نام صفحۂ یاداشت سے پھسل گئے ہیں، ان سب سے ملنا میرے لئے اعزاز تھا اور ناشتے کی میز پر ہی سب ایک بڑے خاندان کا روپ دھار چکے تھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے سب ایک دوسرے کو نہ جانے کب سے جانتے ہوں۔ یہ شاید دہلی کی دوستانہ ہَوا کا اثر تھا، وہ دلی جس کو دشمنوں نے روندا بھی تو اس نے اپنی اُجڑی مانگ کو پھر سے سجا کر دشمنوں کو بھی گلے سے لگا لیا۔ یہ اسی دلی کی کشادہ دلی تھی جس نے لمبے سفر کی تھکن اور بیزاری کے بعد بھی ہر چہرے کو خوبصورت مسکراہٹ اور محبت کا تحفہ دیکر تر و تازہ اور شگفتہ بنا دیا تھا۔ ہر کوئی خواشگوار موڈ میں تھا۔یہ 31 اکتوبر 2014 کی صبح اور عالمی اردو کانفرس کا دوسرا دن تھا۔ ویزے کی مشکلات کی وجہ سے میرا کانفرس کا پہلا دن ضائع ہو چکا تھا۔ ناشتے کے بعد سب ایک بس میں سفر ہو کر JNU convention centre پہنچے۔ یہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا بہت کشادہ اور خوبصورت ہال تھا۔ باہر نہرو صاحب کا مجسمہ سیڑھیا ں چڑھتے ہی مجھے مسکرا کے دیکھ رہا تھا، میں نے ان سے سلام دعا کی اور پتہ نہیں کیوں ایسے ہی شکوہ کر ڈالا "کیوں آپ نے یہ کہا تھا کہ ہندوستان میں دو ہی طاقتیں ہیں ایک برٹش اور ایک کانگرس۔ کیا تھا اگر مسلم لیگ کو اپنی ہم پلہ جماعت مان لیتے؟ کیوں ہمارے جناح کو اتنا زچ کیا کہ انہیں کہنا پڑا "ایک تیسری قوت بھی ہے اور وہ ہیں مسلمان" ۔۔۔ نہرو صاحب کچھ کہنے ہی والے تھے کہ قومی کونسل کی ایک سٹاف میرے بازو میں آ کر کھڑی ہو گئیں ۔۔۔(باقی آئندہ)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024