جنگ یمن میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے معاملہ سو پیاز کھانے کے بعد کی طرف جا رہا ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے سعودی عرب کو فوجی تعاون کی یقین دہانی کرا دی تو ہر طرف سے ایک ہی آواز آ رہی تھی؛’’معاملہ پارلیمنٹ میں لایا جائے‘‘۔ پارلیمنٹ نے جو کہا اسکی فوری طور پر میڈیا اور سیاستدانوں کی طرف سے تحسین کی گئی۔ عرب ممالک کا شدیدردّعمل دیکھا تو متعدد اینکرز اور سیاستدانوں نے پینترا بدل لیا۔ خود میاں نواز شریف بھی پشیمان دکھائی دئیے۔ کھمبا نوچتے ہوئے فرمایا ’’عرب دوستوں کو قرارداد کی سمجھ نہیں آئی‘‘ عربوں کو قرداد کی سمجھ آئی اور اپنے نمک خواروں کی چالاکی بھی۔ خواجہ آصف نے سعودی عرب کی مدد کی قرارداد پیش کی ساتھ ہی یہ باور کرانا بھی ضروری سمجھا کہ دہشت گردی کی جنگ میں کسی ملک نے پاکستان کی مدد نہیں کی۔میاں نواز شریف جس پریس کانفرنس میں اپنے عرب دوستوں کو قراردادکامفہوم سمجھارہے تھے اس میں یہ کہاکہ ہماری فوج ضربِ عضب میں جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہے۔ قرارداد کے فوری بعد وزیراعظم نواز شریف،دونوں بزرگ مشیرانِ خارجہ اور سفارتکار سعودی عرب اور خلیج کونسل کے ممالک کو قرارداد کا ’’مطلب‘‘سمجھا دیتے تو غلط فہمیاں پیدا ہوتیں نہ شہباز کو بعداز بسیار پرواز پکڑ کے سعودی عرب جانا پڑتا۔ عرب ممالک کے ساتھ غلط فہمیوں کا سلسلہ اب بھی رکا نہیں۔ 4اپریل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 15میں سے 14ارکان نے حوثی باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی روکنے کی قرارداد منظور کی۔ روس نے سیز فائر کی تجویز دی جسے دیگر ارکان نے قبول نہ کیا تو روس رائے شماری سے الگ ہو گیا۔ اس قرارداد کے دوسرے روز ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف ماسکو میں پائے گئے۔ اپنے روسی ہم منصب سرگئی شوگوف کے ساتھ جہاں دفاعی شعبوں میں تعاون پر بات ہوئی‘ وہیں اعلامیہ کے مطابق تنازعات سفارتی ذرائع سے حل کرنے اور طاقت کے استعمال کی حوصلہ شکنی پر اتفاق کیا گیا۔ ان حالات میں جب سعودی معاملہ سفارتکاری، ثالثی اور مصالحت سے حل کرنے کی شدید مخالفت کر رہا ہے اور اقوام متحدہ نے طاقت کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے جس پر دو آراء ہو سکتی ہیں تاہم سعودی نقطہ نظر سے اس پر بھی منفی ردعمل آ سکتا ہے۔بادی النظر میں اب پاکستان اور سعودی عرب کے مابین معاملہ فوج کی فراہمی پر اٹکا ہوا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور صالح بن عبدالعزیز پاکستان آئے تو انہوں نے پاکستان پر یمن میں فوج بھیجنے پر زور دیا۔ پاکستان کا متفقہ قرارداد میں موقف واضح ہے تاہم اس قرارداد میں سعودی عرب کی سالمیت کو خطرے کی صورت میں کسی بھی حد تک جانے کاعہدبھی کیا گیا۔ قرارداد کو ’’سمجھنے والے‘‘ارسطو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سعودی ریاست اور حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ انکے کہنے اور سمجھنے کی حد تک ہے۔ سعودی عرب کے اندرونی حالات کی حد تک تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سب اچھا نہیں ہے۔ سعودی عرب کی ایک عدالت نے ایک شیعہ عالم شیخ باقر النمر کو سزائے موت سنائی ہے۔ سعودی عرب کے تین صوبوں قطیف، العوامیہ اور الجیش میں فرقہ وارانہ شورش بپا ہے۔ یمن میں سعودی عرب میں شورش برپا کرنے والوں کا حامی گروپ طاقت میں آ جاتا ہے تو سعودی عرب کے حکمرانوں کیلئے پریشانی تو ہو گی‘ وہ اسی خطرے کی پیش بندی کر رہے ہیں۔عربوں کا ردعمل دیکھتے ہوئے ہمارے حکمران قرادادپر شش وپنج میں پڑگئے ہیں۔ اس گومگو اور کشمکش کے باعث پاک عرب تعلقات میں دڑاریں پڑ رہی ہیں۔ میرے ایک دوست عبداللہ عارف تیس سال بعد ’’دریافت‘‘ ہوئے۔ ان سے فون پر بات ہوئی، انکا موقف ہے کہ جب آپ سعودی عرب سے اربوںڈالر کے گفٹ لیتے ہیں۔بحرانوں کے بحرسے سعودی عرب نکالتا ہے۔ ایٹمی دھماکوں سے گرتی معیشت اربوں ڈالر کے تیل کی فراہمی سے بحال کی۔ اب اسے ضرورت ہے توقراردادکا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔سعودی عرب کو وہی کچھ دیں جو وہ مانگتا ہے اور وہی کریں جو کہتا ہے۔بہت سے پاکستانی اسی موقف کے حامی ہیں۔ان حالات میں دونوں ممالک کو درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے جو چنداں مشکل نہیں ۔ ضرورت پڑنے پر سعودی عرب کے دفاع کابار بار اعلان کیا گیا ۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو براہ راست خطرہ لاحق ہوا تو اسے پاکستان پر حملہ سمجھا جائیگا۔ سعودی عرب کی سلامتی کو اندرونی طور پر اپنے ہی لوگوں سے خطرہ تو ہے۔ معروضی حالات میں حج کے ایام سعودی حکمرانوں اور ریاست کیلئے آزمائش ثابت ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب اسکی پیش بندی پانی ناک تک آنے سے قبل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان اپنے اعلان کے مطابق سعودی عرب کے اندر اسکی سالمیت و سلامتی کے تحفظ کیلئے سکیورٹی دستے فراہم کرسکتاہے‘ وہ رینجرز ہو سکتے ہیں‘ ایف سی ہو سکتی ہے اور ممکن ہوا تو فوج بھی ہو سکتی ہے۔ سعودی عرب بھی یمن میں لڑنے کیلئے فوج کی فراہمی پر اصرار نہ کرے۔ پاک فوج نے سری لنکا میں تامل باغیوں کو شکست میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ سعودی عرب شاید پاک فوج کے اسی تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ ہم لوگ حلیف کی خوبیاں بیان کرنے پر آ جائیں یا حریف کی عیب جوئی پر تُل جائیں تو زمین و آسمان ایک کر دیتے ہیں۔ آج کچھ لوگ سعودی عرب کے پاکستان پر کردہ وناکردہ احسانات کی نہ ختم ہونے والی فہرست اٹھائے پھرتے ہیں جن کو سعودی عرب سے خار ہے وہ اسکے احسانات سے یکسر منکر ہیں۔ اسحاق ڈار نے وضاحت کی ہے کہ ’’سعودی عرب سے تیل ہمیں مفت یا سستے داموں نہیں ملتا، بازار کے داموں خریدا جاتا ہے۔ سعودی عرب نے تاریخ میں صرف ایک بار جوہری دھماکوں کے بعد تقریباً دو ارب ڈالر کا مفت تیل دیا۔ 2013 ء میں موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد تحفے میں ڈیڑھ ارب ڈالر دیئے تھے۔اسکے علاوہ انکی ہمارے جوہری پروگرام، میزائل پروگرام، ضرب غضب آپریشن میں کوئی مدد نہیں کی‘‘۔بہرحال اسحاق ڈار نے جن احسانات کا اعتراف کیا وہ بھی کم نہیں ہیں۔ جیسی وضاحت اسحاق ڈار نے سعودی امداد بلکہ خیرات کے حوالے سے کی ایسی وضاحت حکومت سری لنکا میں پاک فوج کے کردار کے حوالے سے بھی کر دے ۔اگر یہ مشاورت اور تربیت کی حد تک تھی تو ایسی سہولت سعودی عرب کو بھی فراہم کر دی جائے۔ عرب ممالک جس زوردار طریقے سے بلکہ تقریباً گریبان پکڑ کر فوج کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور حکومت جس طرح پھسل رہی ہے۔ لگتا ہے سو پیازوں کے بعد کی کارروائی پر آمادہ ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے کہا ہے سعودی عرب کو لاحق ممکنہ خطرہ کا جائزہ لیا جارہا ہے۔پارلیمنٹ کی قرارداد کو قومی سوچ،قومی ضمیر اورقومی شعور کی آئینہ دار قرار دیا گیا تھا مگر جس طرح سے ایک آدھ پارٹی کے سوا پارلیمنٹیرین بیک آئوٹ کر گئے ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ وژن لیس ثابت ہوئے۔انہیں ادارک ہی نہیں تھا کہ قرارداد کا کیا نتیجہ ہوسکتاہے۔ انہوں نے بھی اپنے ووٹرز کی طرح خود کو ریوڑ ظاہر کیا جسے جس طرف ہانک دیا اسی طرف رُخ کر لیا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024