لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منظور احمد ملک نے چیف جسٹس کا باوقار منصب سنبھالنے کے فوراً بعد پنجاب بھر میں عدالتی ڈھانچے اور اس سے متعلقہ اور بار کے معاملات کا جائزہ لینے، مسائل کے حل کرنے اور عدالتی عمل اور انصاف کی فراہمی کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے رات دن ایک کر رکھا ہے۔ انہوں نے اوپر نیچے کئی دورے کئے ہیں۔ اور یقیناً ان کے ثمرات سامنے آئیں گے مگر وہ اکیلے تو سب کچھ ٹھیک نہیں کر سکتے۔ گزشتہ ایک روز میں صرف لاہور ہائی کورٹ کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہمارے عدالتی نظام سے جڑے ہوئے دکھی منظر نامے کی تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ ایک خبر کے مطابق ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنے والی رفعت نامی خاتون نے اپنے خلاف مظالم پر آواز اٹھائی تو اس کے خلاف پولیس نے جعلی چوری کا مقدمہ درج کر لیا۔ وہ انصاف کے لئے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جناب کاظم رضا کی عدالت میں پیش ہوئی اور کیس کی پیروی کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے کونر روڈ والے گیٹ سے باہر نکلی تو وہاں بیٹھے اشرف نور وغیرہ نے اسے دبوچ لیا اور گلے میں ڈوپٹہ ڈال کر گھسیٹنے لگے لوگوں نے ملزموں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تو پولیس والوں نے ملزموں کو فرار کروا دیا۔ تمام قومی اخبارات نے اس کھلی بربریت کی خبریں شائع کی ہیں۔ اس روز مسٹر جسٹس سردار طارق مسعود کی عدالت میں پولیس نے ایک ملزم نعیم احمد کو پیش کیا جس نے نیلم بی بی کو فون پر دھمکیاں دی تھیں۔ اس کے خلاف تھانہ لدھا میں پرچہ درج ہوا تھا۔ پولیس نے عدالت میں بتایا کہ ٹیلیفون ڈیٹا کے مطابق ملزم پر الزامات درست ہیں۔ ثبوت سامنے آنے پر ملزم کی ضمانت کی درخواست مسترد ہو گئی۔ پولیس ملزم کو اپنی تحویل میں لے کر عدالت سے باہر آئی تو پولیس کے مطابق وکلاء نے ملزم کو فرار کروا دیا۔ یہ خبر بھی تمام قومی اخبارات نے رپورٹ کی ہے۔ یہ منظر نامہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے عدالتی سسٹم کو کتنے خطرات لاحق ہیں اب جو ملزمان کسی فریق کی غیر ذمہ داری سے فرار ہوئے ہیں۔ وہ قانون کی گرفت میں کب اور کیسے آئیں گے۔ اگر صوبہ پنجاب کی سب سے بڑی عدالت کے ارد گرد قانون کی رٹ کی یہ صورت حال ہے تو چھوٹے شہروں اور ماتحت عدالتوں میں کیا کچھ ہو رہا ہو گا۔ لاہور کی حد تک چیف جسٹس جناب منظور احمد ملک سے گزارش ہے کہ اس ایک مسئلہ کو حل کرنے کے لئے صدر لاہور ہائی کورٹ بار پیر مسعود چشتی صدر لاہور ڈسٹرکٹ بار اشتیاق احمد اور آئی جی پولیس پنجاب کو بلا کر ایک موثر لائحہ عمل مرتب فرمائیں اس لئے کہ اگر کمرہ عدالت میں انصاف کے سارے تقاضے پورے ہونے کے بعد کمرہ عدالت سے باہر سب کچھ غیر موثر ہو جائے تو فاضل عدالتوں کے وقار پر حرف آتا ہے۔ ادارے بدنام ہوتے ہیں اور انصاف کی سستی اور جلد فراہمی کی ساری کوششیں بے ثمر ہو کر رہ جاتی ہیں۔ حکومت کا بھی اس ضمن میں ایک موثر کردار ہو سکتا ہے بار کے نمائندوں نے دو ہفتے پہلے میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی تھی اور گزشتہ روز مسلم لیگ ن رائیٹرز فورم لاہور کے صدر محمد پرویز ملک، نصیر احمد بھٹہ اور دوسرے وکلاء رہنمائوں نے با اختیار رکن اسمبلی حمزہ شہباز شریف سے ملاقات کی ہے۔ ظاہر ہے حکومت اور وکلاء رابطے میں ہیں تو پھر عدالتی ماحول کو مثالی کیوں نہیں بنایا جا سکتا۔ ملک میں خواہ کتنے ہی بحران ہوں اگر ہمارا عدالتی نظام ایسا ہو کہ لوگ اس پر اعتماد کرنے لگیں۔ اور سب کو یقین ہو کہ جھوٹ بدنیتی اور عدالتی سسٹم کو غلط استعمال کرنے کی بدکردار لوگوں کی کوششیں عدالتی نظام میں ابتدائی مراحل میں ناکام ہوں گی تو پھر قوم کسی بحران سے پریشان نہیں ہوگی۔ ایک باہمت انصاف پسند باکردار اور متحرک چیف جسٹس کے دور میں یہ سب کچھ ممکن ہے بشرطیکہ تمام فریق خلوص نیت سے تعاون کریں اور انصاف اور نیکی اور خدا خوفی اور دکھی انسانیت کے درد بانٹنے کیلئے چیف جسٹس کے کندھے سے کندھے ملا کر کھڑے ہو جائیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024