امریکی وفد کی پاکستان آمد
امریکی صدر نے اپنے ایک بیان میں پاکستان سے دھمکی آمیز لہجہ میں ڈومور کا تقاضا کیا تھا۔ تقاضا کرنا تو کوئی نئی بات نہیں ہے مگر اس مرتبہ تقاضہ میں دھمکی بھی شامل تھی۔ جس کے جواب میں پاکستان کے سنجیدہ طبقہ نے کہا کہ جو کچھ اور جتنا ممکن تھا پاکستان نے کردیا۔ اب کچھ بھی مزید کرنے کی باری امریکہ کی ہے اور وہ اپنا کردار ادا کرے تاکہ پاکستان کو بھی دہشتگردی جیسے عفریت سے جان چھڑوانے کا موقع ملے۔ ڈومور کے چکر میں گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان اپنا کتنا نقصان کرچکا ہے اس کا اندازہ سب کو ہے مگر علاقہ میں آنے والے نئے تھانے دار کی طرح ٹرمپ بھی اب اسی تقاضے کو دہرانے کو اپنا وقار سمجھتے ہیں۔ اب امریکی وزیر دفاع بھاری لشکر کے ساتھ پاکستان آئے ہیں جہاں کی ملاقاتیں وزیر اعظم، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور آرمی چیف سے ہونگی۔ غرض امریکی وفد کوئی اور اچھی نوید لے کر تو نہیں آرہا سوائے اس کے کہ ٹرمپ کی حالیہ دھمکی آمیز لہجہ پر بات چیت ہوگی۔ آنے والا وفد اب تک کے آنے والے وفود میں سب سے بڑا وفد ہے جو پاک امریکہ تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں دورہ کررہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکی وفد کے اس دورے سے پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کا ایک نیا خاکہ بھی تیار ہوگا۔ پہلی بار اس اثناء میں جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکی امداد کو ’’دوچار آنے ‘‘قرار دیتے ہوئے اسے نا ملنے کی صورت میں ’’گزارہ کرلینے‘‘کا عندیہ بھی دیا ہے۔ انہوں نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف مشترکہ فوجی آپریشن کی پیش کش بھی کی ہے مگر ڈیکٹیشن نہ لینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر مزید دبائو آیا تو چین، روس، ایران اور ترقی کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ اب وہ کریں گے جو پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔ وزیر خارجہ کا بیان ناجانے کتنے سوالوں کو جنم دے رہا ہے گویا اب تک پاکستان کے مفاد میں کچھ نہیں کیا گیا؟ چین، ترقی، روس اور ایران وہ ممالک ہیں جو امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ ان کے ساتھ کھڑے ہوجائیں، کا تیز جملہ اس بات کا بھی عکاس ہے کہ شاید اب تک ان ملکوں کے ساتھ نہیں کھڑے تھے۔ پاکستان خود دو کشتیوں میں سوار ہے امریکی مفادات کی حفاظت اور چین کے ساتھ سی۔پیک منصوبہ، ترقی کے ساتھ کئی ترقیاتی منصوبے اور ایران سے حقِ ہمسائیگی کا دعویٰ یہ سب وہ حقیقتیں ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔ افغانستان کے بارے میں امریکہ کی نئی پالیسی میں بھارت کا بہت بڑا کردار بھی پاکستان کے پاک امریکہ تعلقات کے لیے ایک سوال بن کے اٹھے گا۔ بھارت خطہ میں اپنے بدمعاشی قائم رکھنے کے لیے کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہے۔ ایسے میں پاکستان بھلا کس طرح بھارت کے ’’کھلے بندوں‘‘ کردار کو برداشت کرے گا۔ وزیر خارجہ کی جرأت بھی قابل تحسین ہے کہ انہوں نے امریکی امداد اور ڈیکٹیشن کو اپنے لیے غیر ضروری قرار دیتے ہوئے روس سے تعلقات بڑھائے جانے کا عندیہ دیا ہے انہوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ پہلی بار امریکہ کو اس لہجہ میں مخاطب کیا گیا ہے۔ اس لہجہ کے اثرات کو قائم رکھنے کے لیے آنے والے وفد کے ساتھ گفتگو میں یہی انداز اور اسی جرأت کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد ازاں بیانات سے تشریحات کرنی پڑ جائیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ کو یہ باور کرادیا جائے کہ پاکستان ایک ایسا آزاد ملک ہے کہ جس کے ارد گرد بے شمار خطرات منڈلا رہے ہیں لہذا بہتر ہوگا کہ ڈیکٹیشن کی بجائے ہمارے ساتھ برابری کی سطح پر بات چیت کی جائے اور اس مملکت خداداد کی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچایا جائے۔