صیہونی طاقتوں کے عزائم
اسرائیل کے پہلے اور مشہور وزیراعظم بن گورین نے عرب اسرائیل جنگ کے فوراً بعد ایک بیان دیا جو ۹ اگست ۱۹۶۷ء کو یہودیوں کے سرکاری رسالے میں شائع ہوا۔ عالمی صیہونی تحریک کو پاکستان کی طرف سے لاحق خطرات سے غافل نہیں رہنا چاہئے اور اب اس کا پہلا ہدف پاکستان کو ختم کرنا‘ ہونا چاہئے کیونکہ یہ نظریاتی مملکت ہمارے وجود کے لئے خطرہ ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ پاکستان کے خلاف فوری اقدامات کئے جائیں۔ بھارت کے ہندو مسلمانوں سے سخت نفرت کرتے ہیں ہمارے بہترین دوست ہیں ہمیں ان کے اڈوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہئے۔ پاکستان پر کاری ضرب لگائیں اور اسے ہمیشہ کیلئے کچل دیں۔
پچاس سال گزرنے کے بعد اس بیان پر عمل درآمد ہمارے ملک کے دو ٹکڑے ہونا (بنگلہ دیش کا قیام) میڈیا پر عالمی قوتوں کا اسلام دشمن پروپیگنڈہ‘ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہود و ہنود کی اجارہ داری اور نصاب تعلیم میں اسلام کے ارکان کا ختم کرنا۔ اسلام کے ہیروز کو مختلف طریقوں سے بدنام کرنا شامل ہے۔ دیگر نئی نسل کو قدامت پسند جدت پسند کو جھوٹے پروپیگنڈہ سے اسلام سے متنفر کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ پاکستان کے آئین میں پہلی شق ہے کہ اسلامی مملکت خداداد پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں بن سکتا۔ بدقسمتی سے یہود و ہنود اس طرح اس ملک کے نظریاتی اور جغرافیائی حدود میں خود تو داخل نہیں ہوئے لیکن انہوں نے اپنے ایجنٹ اس مملکت خداداد پاکستان میں داخل کئے جس طرح سلطان ٹیپو شہید کے میرقاسم اور میر جعفر نے غداری کا کام کر کے ان کی فتح کو شکست میں بدل دیا تھا۔
ختم نبوت کا عقیدہ کسی انسان یا حکومت کی دستور ساز اسمبلی کا قانون نہیں بلکہ یہ اﷲ پاک کا حکم ہے اور اس کی تشریح کلمہ طیبہ میں واضح ہے اور اس کو ماننے والا مسلمان اور نہ ماننے والا کافر قرار دیا گیا۔ جس کا ثبوت حضور ﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں جھوٹے نبوت کے دعویداروں کے خلاف جہاد کی صورت میں نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے اسلامی مملکت پاکستان کے حکمرانوں نے عوام کو بنیادی ضروریات (روٹی کپڑا‘ مکان‘ صحت‘ تعلیم) حتیٰ کہ پینے کے پانی سے بھی محروم کرکے آخری وار ان کے ایمان پر حملہ کر کے اپنے یہود و ہنود کے ایجنٹ ہونے کے شک کو یقین میں بدل دیا ہے۔ وزیر قانون پنجاب کا یہ بیان مرزائی نماز اور کلمہ پڑھتے ہیں اس لئے مسلمان ہیں لیکن ان کو شاید یہ معلوم نہیں کہ مرزائیوں نے کلمے میں کس حد تک تبدیلی کی ہے اور نہ صرف وہ اسلام کی شرط اول کے مطابق مسلمان نہیں ہیں دیگر ہندو بھی رام کو مانتے ہیں‘ عبادتیں کرتے ہیں۔ یہودی اور عیسائی اہل کتاب ہیں ہم ان کو کیوں مسلمان نہیں کہتے۔ مفتی( جو قرآن و سنت کے مطابق فتویٰ جاری کرتے تھے) فتویٰ علمائے اسلام کی بجائے اسمبلی کے ذمے آ گیا ہے اور علمائے اسلام قرآن و حدیث کی بات کرنے والے دہشت گرد قرار دے دئے گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اس فتنے کو بھانپ لیا تھا اور اس کا سدباب ختم نبوت کو نہ ماننے والوں کو کافر قرار دے کر پاکستان کے ایک بڑے فتنے کو ختم کر دیا تھا کیونکہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ محمد الرسول اﷲ کی بنیاد پر قائم ہوا۔ ملک کو پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاﷲ تک محدود کیا تو ہمارا ملک آدھا رہ گیا۔ اب جبکہ کلمے کو تبدیل کرنے والوں کو بھی مسلمان کہلانے کا حق دیا جا رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ بچا کھچا اسلام کا قلعہ پاکستان اس فتنے کو پیدا کرنے والوں کے عزائم سے ختم ہو جائے۔ تم نے لوگوں کا جینا محال کر دیا ہے مگر تم نمرود‘ شداد اور فرعون سے زیادہ طاقتور نہیں۔ عوام کو تم ڈرا دھمکا کر دبا دو گے لیکن عاشقان رسولؐ اس تعداد میں ہیں کہ تمہار اسلحہ ختم ہو جائے گا مگر وہ ختم نہیں ہوں گے۔ توبہ استغفار کرلو اور خدا کے عذاب سے بچ جاؤ۔