آج ایک بار پھر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج یاد آگیا۔بھولا توکبھی نہیں تھا، زندگی بھر کی سب سے خوبصورت یادیں اگر ہیں تو صرف لاء کالج کی ۔باقی سب بعد میں۔اگرچہ پرائمری سکول ہائی سکول ،کالج سب اپنے دامن میں یادوں کا ایک خزانہ رکھتے ہیں،اس وقت کے دوست اور اساتذہ کہاں بھولتے ہیں ،مگر لاء کالج میں گذرا وقت تو "ناسٹلجینا"کے زمرے میں آگیا۔تب قانون کی تعلیم مکمل کرنے کیلئے دوسال ہوتے تھے ۔، F.E.LاورL.L.Bجواب پارٹ ون ۔ٹو اور تھری کی شکل میں موجود ہیں۔ہمارے اساتذہ میں کالج کے پرنسپل شیخ امتیاز،سردار اقبال موکل‘اعجاز بٹالوی‘۔آفتاب فرخ‘عابدحسن منٹو‘ایم ۔ایس رانااور حفیظ خاں صاحبان کے نام صف اول میں تھے۔جبکہ اعتراز احسن‘ خلیل الرحمان رمدے،راشدعزیز اور ڈاکٹر خالد رانجھا صاحبان کا شمار ان کے بعد ہوتا تھا۔طاہر القادری صاحب تو ان کے بھی بعد میں آئے ۔1977ء میں جب میں نے لاء کالج سے فارغ ہوکر پیشہء وکالت میں اپنا نام لکھوایا تو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کالج اور ہاسٹل سے تو رابطہ ختم ہوگیا مگر اساتذہ اور خاص طور پر جزوقتی اساتذہ سے لاہور ہائی کورٹ کی نسبت سے رابطہ قائم رہا۔جن میں خاص طور پر ملک سعید حسن جو میرے داخلہ لینے سے قبل ہی پڑھانا چھوڑ چکے تھے،عابد حسن منٹو،اعتراز احسن ،خلیل الرحمان رمدے اور ڈاکٹر خالد رانجھاصاحبان سے بڑا قریبی تعلق رہا ۔یہ سبھی بڑے لوگ میدان سیاست کے بھی شاہسوار تھے۔ملک سعید حسن اور عابد حسن منٹو صاحب کے علاوہ باقی سب کا تعلق چونکہ تحریک استقلال سے رہا ،اس لئے ان کی قربت بھی زیادہ نصیب ہوئی خیالات ملتے ہوں تو دل بھی مل جاتے ہیں۔اس کے دوتین سال بعد ضیاء الحق کے خلاف ایک بڑا سیاسی اتحاد"MRD"(تحریک بحالی جمہوریت )کے نام سے قائم ہوا تو دیگر بہت سی سیاسی جماعتوں کے وکلاء سے بھی تعلق قائم ہو گیا ،کئی ایک کے ساتھ تو جیسے زندگی بھر کی رفاقت ہوگئی جیسے ملک سعید حسن ،ملک قاسم ،لیاقت وڑائچ اور اعترازاحسن وغیرہ ۔سبھی قابل اور اچھے وکلاء تھے کچھ نام ایسے تھے جن کا طوطی بولتا تھا۔جیسے اعجاز بٹالوی اور میاں محمود علی قصوری ۔دونوں ہی بڑے بااصول تھے ۔مجلس آرائی کا سلیقہ اگر بٹالوی صاحب کے پاس وافر تھا تو نقطہ رسی کا خزانہ قصوری صاحب کے پاس ۔بٹالوی صاحب کا حلقہ احباب زیادہ تر ہائی کورٹ کے وکلاء اور لاہور کے شعراء اور ادیبوں پر مشتمل ہوتا ۔جبکہ قصوری صاحب کا حلقہ احباب سیاسی کارکن ہوتے۔قصوری صاحب کے ساتھ چونکہ تحریک استقلال کی وجہ سے زیادہ وقت گذرتا اس لئے پیشئہ وکالت کی کچھ بنیادی اخلاقیات کا بھی علم ہوتا رہتا۔ایک خوبی تو میاں صاحب میں یہ تھی کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن کا مقدمہ لڑنے کے لئے اگر انہیں دوردراز چھوٹی تحصیلوں کی عدالتوں تک بھی جانا پڑتا توگریز نہ کرتے ۔فیس کا تو سوال ہی پیدانہیں ہوتا تھا۔میاں صاحب کہاکرتے تھے کہ"وکالت تمہارا پیشئہ ہی نہیں عزت کا باعث بھی ہے"وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات اس وقت خوب اچھی طرح سمجھ آئی جب اعجاز بٹالوی صاحب ضیاء الحق کی حکومت کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف وکیل بنے ۔ضیاء الحق ایک فوجی آمر اور عوام میں غیر مقبول تھا۔ اعجاز بٹالوی صاحب نے حکومت کی طرف سے وکالت نامہ دیا تو پہلے عام آدمی نے اسے اچھا نہ سمجھا۔پھر وکلاء برادری نے بھی اس عمل کو پسند نہ کیا تو بٹالوی صاحب عوام اور بار روم سے کٹ کررہ گئے۔کس کس کو وضاحت پیش کرتے ،ایک غلط کیس لے کر گویا گوشہ نشین سے ہوگئے۔کسی کے نزدیک یہ بات ہوسکتا ہے کہ درست ہو کہ وکیل کا کام تو مقدمہ لینا ہے اسے کیا غرض کہ یہ کس کا مقدمہ ہے اور اس کے نتائج وعواقب کیا ہیں۔ میرے نزدیک نہیں۔قائد اعظم اور حسین شہید سہروردی نے کبھی ایسے مقدمے کو ہاتھ نہیں لگایا جس سے عوام دشمنی کی بو آتی ہو۔سہروردی صاحب نے سیاست کے علاوہ پیشئہ وکالت میں بھی شہرت اور بے پناہ عزت کمائی اور پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچے ۔عام آدمی کو قومی اور عوامی نوعیت کے مقدمات میں دلچسپی ہوتی ہے ،اس کا ایک خیال ہوتا ہے اور درست ہوتا ہے کہ اچھے وکیل کو لوگوں کے مفادات کا خیال رکھنا چاہیئے ۔گذشتہ سالوں مہران بینک سکینڈل کا مقدمہ سپریم کورٹ میں ایک بار پھر منظر عام پر آیا جسے اصغر خاں کیس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔جس میں نواز شریف ،قاضی حسین احمد ،غلام مصطفے جتوئی اور جاوید ہاشمی وغیرہ پر الزام تھا کہ انہوں نے جنرل اسلم بیگ سے رقم لے کر بینظیر بھٹو کے خلاف "I.J.I" (اسلامی جمہوری اتحاد) کے نام سے ایک سیاسی پلیٹ فارم بنایا۔یہ مقدمہ عدالت میں ثابت ہوا۔اور ان سب سیاسی آڑھتیوں کے خلاف عدالتی حکم بھی آگیا۔جس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا۔اس مقدمے میں اصغر خاں کے وکیل سلیمان اکرم راجہ صاحب نے بڑا نام حاصل کیا عزت اور شہرت کمائی کیونکہ انہوں نے بڑی محنت سے نواز شریف وغیرہ کے خلاف مواد اکٹھا کیا اور عدالت سے یہ مقدمہ جیت کر اپنی قابلیت کا لوہا منوایا عوام کی نگاہوں میں ان کی عزت میں بھی اضافہ ہوا۔بعد میں اصغرخاں کے یہی وکیل صاحب پانامہ کیس میں نواز شریف کے وکیل بن گئے۔ اعتراز احسن ایک بڑے وکیل ہیں ۔قابل آدمی ہیں ،اچھے مقرر اور اچھا لکھنے والے ہیں۔میدان سیاست میں بھی انہوں نے بڑا نام کمایا۔اعلی سے اعلی منتخب ایوانوں تک پہنچے ۔پاکستان کے وزیرداخلہ بھی رہے۔عدلیہ بحالی تحریک کے دوران بچے بچے کی زبان پر ان کا نام آگیا۔بے پناہ مقبول ہوئے۔یہ الگ بات ہے کہ جنرل کیانی اور جسٹس افتخار چوہدری کی اس ملی بھگت کی ساری کمائی کچھ دوسرے لے گئے اور اعتراز احسن ہاتھ ملتے رہ گئے۔پیپلز پارٹی میں صدر زرداری نے انہیں پیچھلی صفوں پر جگہ دی انہوں نے میاں محمود علی قصوری کی قربت کے باوجود ایسے مقدمے بھی لئے جو اگر میاں صاحب زندہ ہوتے تو اپنے موکل کو کھڑے کھڑے گھر سے نکال دیتے جو لوگ ان کے مزاج شناسوں میں تھے وہ جانتے ہونگے کہ ،انہوں نے سچائی اور اصولوں پر کبھی سودا نہ کیا۔
اعتراز احسن پر اگر ان کے کردار کا کوئی عکس ہوتاتو وہ مارگلہ کی پہاڑیوں کی جنت پر سے درخت کاٹ کاٹ کر انہیں جہنم زار بنانے کا مقدمہ کبھی اپنے ہاتھ میں نہ لیتے بلکہ ہوسکتا تو بلا کوئی فیس وصول کئے عوامی مفاد کیلئے C.D.Aکے خلاف پیش ہوکر اپنی نیک نامی میں اضافہ کرتے۔ وکیل یا تو کسی مقدمے کے حق میں ہوتا ہے یا خلاف۔"عدلیہ بحالی"تحریک سے پہلے کے وکلاء کے واقعات سنانے بیٹھوں ۔تو میاں محمود علی قصوری ،ملک سعید حسن ،آفتاب فرخ،عابد حسن منٹو جیسے لوگ میرے نزدیک پیشئہ وکالت کے "ولی"تھے ایسے صاحب کردار لوگ اب کہاں سے ملیں گے ۔یہاں مجھے نیو یارک کے سب سے بڑے فوجداری وکیل آں جہانی "ہیرلڈ کرنر" یاد آگئے۔جب ایک بارمیں نے ان سے پوچھا کہ ایک قابل وکیل کی کیا نشانی ہے جوابا انہوں نے کہا کہ آپ کا سوال غلط ہے سوال یہ ہونا چایئے تھا کہ ایک وکیل "اچھا وکیل"کب بنتا ہے تو اس کا جواب ہے کہ جب اس میں کسی مقدمے کو لینے سے انکار کی ہمت پیدا ہوجائے۔