انسانی رشتوں کا تقدس ہی انسانوں معاشروں کو پررونق رکھتا ہے۔ مشرق ہو یا مغرب تقدس کیلئے رشتوں میں سب سے بڑا مرکز ماں ہی ہوتی ہے۔ ہر بڑا آدمی اپنی زندگی کی کامیابیوں میں اپنی شخصیت کی تعمیر کے اسباب کو تلاش کرتا ہے، بالآخر اس تلاش میں وہ اپنی ماں کی معصوم اور حوصلہ افزاءذات کو تلاش کر لیتا ہے اور اس کی گود کی گرمی کو اپنے احساسات کی زندگی کا سہارا بناتا ہے۔ یہ پرانی یاد ہمہ لمحہ زندگی کو نیا پن عطا کرتی ہے۔ دن رات کی مسلسل محبت بھری نگاہ سے اپنی تمناﺅں کی مٹھاس اولاد کی ذات میں منتقل کرتی ہے اور پھر ماضی کو حال کے راستے سے مستقبل میں اتارتی ہے اور اولاد جب اس محبت کی شیرینی سے فیضیاب ہوتی ہے تو اس کی محبت کی پناہ گاہ اس کی ماں ہی ہوتی ہے۔ ماں بچے کی عافیت و خیریت اور طول حیات کی تمناﺅں کو دعاﺅں کے الفاظ میں ڈھال کر اپنا وظیفہ جان بناتی ہے۔ اس کی تربیت کیلئے اپنے وسائل کو اپنی طاقت سے زیادہ استعمال کرتی ہے۔تخلیق خداوندی کیلئے جو طریقہ فطرت جاری ہوا۔ اس میں ماں کی اہمیت کا انکار کسی بھی لحاظ سے ناممکن ہے۔ ماں ہی تخلیق کا وسیلہ ہے اور ماں ہی رزق رسائی کا ذریعہ اول ہے۔ علم کی ابتداءماں کی گود سے ہوتی ہے۔ شعور ذات بھی ماں کی لوری سے نصیب ہے۔ کسی نے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیا اس نے اپنی پیدائش کے بعد اپنی تربیت اور اپنے علم کا اہتمام اپنی ذہانت یا اپنی محنت سے کیا ہے۔ یہ ممکن بھی کیسے ہے کہ کوئی ذی شعور اور محبت کے جذبات کا روا دار کس طرح بھی اپنی ماں کی بنیادی شفقتوں کا انکار کر سکے۔دنیا بھر کے اہل علم اور اہل جذبات و عقل ہمیشہ ہی اپنی ماں کی بے طمع محبت کا خواستہ و نخواستہ اعتراف ضرور کرتے ہیں۔مجھے بھی آج اپنی والدہ محترمہ مرحومہ اماں جی کی بے طمع محبت اور پر ایثار زندگی کی یاد بہت زیادہ آ رہی ہے کہ ماہ صفر المظفر کی 16 تاریخ کو میری اساس زیست اور میری شخصت کی جادو نما مربیہ اماں جی نے جہاں دنیا فنا سے دربقاءکی طرف روانگی کا اہتمام کر لیا اور پھر برزخ کی دنیا میں اپنی حیات کا دوسرا مرحلہ گزارنے کیلئے سفر کا ارادہ بالجزم کر لیا اور تقدیر کے فطری فیصلے کو قبول کر لیا۔ہم سب ہی اللہ کی ملکیت ہیں اور ہمارا ہر قدم ہر پہلو سے دار آخرت کی جانب لوٹ رہا ہے۔ ماں کی وفات اور پھر اس کی یاد زندگی میں ایک مستقل موضوع بن جاتا ہے۔ ہاں کیوں نہیں ماں تو اصل وجود ہے۔ اسی ماں کی مہربانی سے بے فکری اور بغیر تردد کے نہایت پاکیزہ رزق بچپن کی بے بسی میں نصیب ہوا ہے۔ پھر اپنے حواس و اعضاءکے فوائد کا عملی طور پر درست احساس بھی اسی ماں کی تربیت کی بدولت ہوا اور پاک و ناپاک کی تمیز بھی اسی ادارے سے نصیب ہوئی جس ادارے کو کائنات کے سب سے بڑے عالم اور حکیم و دانا نے سب سے پہلا علمی و تربیتی ادارہ قرار دیا اور ماں کی گود کو مہد فرما کر ماں کی مہر بیانہ حیثیت کو امر کر دیا۔میری والدہ مرحومہ کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا لیکن طبیعت میں فقر محمدی کا خمیر اتنا گندھا ہوا تھا کہ ان کے ہر لفظ سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنی گفتگو کو کسی بھی لمحہ ذکر خدا اور یاد مصطفی سے خالی نہیں رکھنا چاہتیں۔ جب وہ گفتگو کا آغاز کرتی تھیں تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتی تھیں۔ تسبیح ہر وقت ہاتھ میں رہتی تھی۔محلے بھر کی عورتیں اپنے کام کاج سے فراغت کے بعد ہمارے گھر اماں جی کے پاس آ کر اپنی مجلسی زندگی کا آغاز کرتی تھیں۔ عورتیں اپنی باتیں سناتی تھیں اور اماں جی تسبیح ہاتھ میں لئے کبھی کبھار ہوں، ہاں کر دیتی تھیں۔ پھر حسب حال ان عورتوں کو مشورہ دیتی تھیں اور ذکر اذکار کی تلقین کرنے کے بعد فرماتی تھیں۔ اللہ دا ناں ہی سب تو وڈا اے اللہ کا نام ہی سب سے بڑا ہے۔کئی عورتیں شکایت کرتی تھیں کہ ان کے بچے کام پر دھیان نہیں دیتے اور نہ ہی میری نصیحت سنتے ہیں تو اماں جی جواب دیتی تھیں کہ یہ سب اللہ دا مال ہے اور تلقین کرتی تھیں کہ تم آٹا گوندھنے سے پہلے وضو ضرور کیا کرو اور آٹا گوندھتے ہوئے کلمہ شریف ضرور پڑھا کرو۔ آٹے روٹی میں برکت ہو گی تو بچوں میں بھی خوف خدا پیدا ہو گا اور جب خوف خدا آ جاتا ہے تو ماں باپ کا احترام خود ہی آ جاتا ہے۔اماں جی جب محلے کی عورتوں کی مجلس میں بیٹھتی تھیں تو سب سے پہلے بار بار ہر ایک سے پوچھتی تھیں کہ ناشتہ کیا ہے۔ اکثر عورتیں اپنی غربت کو چھپاتی تھیں اور کہتی کہ بس کام کرتے کرتے ناشتہ یاد ہی نہیں رہا۔ اماں جی کہتیں تھیں کہ سب باتیں چھوڑو آﺅ سب مل کر ناشتہ کریں۔ وہ اپنی محلہ دار سہیلیوں کو اپنا کنبہ کہتی تھیں اور ان کی چھوٹی موٹی ضروریات کا از خود خیال رکھتی تھیں۔ اپنی عیال داری کے باوجود کچھ رقم بچا کر رکھتی تھیں اور خاموشی سے حاجت مند عورتوں کے گھر جا کر بہت ہی شفقت اور باعزت طریقے سے ان کو دے دیا کرتی تھیں۔ماں جی اپنی اولاد کی تربیت میں بہت زیادہ محتاط تھیں حد سے زیادہ پیار اماں جی کے ہاں بالکل نہ تھا نماز اور تعلیم پر سختی کا رویہ تھا۔ سب بچے ان کی ناراضگی سے بچتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک پڑوسن نے جب دیکھا کہ وہ اپنے بچوں کو وقت پر نماز ادا کرنے کیلئے ذرا سختی سے کام لے رہی تھیں تو اس نے کہا کہ آپا جی آخر یہ بچے ہیں اتنی سختی بھی اچھی نہیں تو جواب میں اماں جی نے تربیت کا ایک مضبوط اور کامیاب اصول اس جملے میں بیان کر دیا۔ کہ دیکھ میری بہن بچوں سے محبت اچھی بات ہے لیکن ان کی اچھی تربیت کیلئے ان پر سختی کرنا اس سے بھی بڑی اچھی بات ہے اور ہمیشہ اولاد کو سونے کا نوالہ کھلاﺅ لیکن ان پر نظر شیر کی طرح رکھو۔اماں جی کو باطنی فراست کا وافر حصہ قدرت نے عطا فرمایا تھا اپنے اہل خانہ میں اگر کسی کوبھی ذرا سا پریشان دیکھتی تھیں تو فوراً معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتی تھیں اور پھر اسے پکڑ کر بیٹھ جاتی تھیں اور ایسے دل نشین انداز میں تلقین کرتی تھیں اور حوصلہ دیتی تھیں کہ پریشان حال اپنی پریشانی کو بھول کر نئے حوصلے اور عزم سے اپنے معاملات کی اصلاح میں مصروف ہو جاتا تھا۔ماں کی یاد زندگی کی کہانی کے ہر باب میں عنوان جدید بن کر آتی ہے اور زندگی کو روشن تر کرنے کا حوصلہ بخشتی ہے۔ اے ہمارے رب ہمارے ماں باپ کی مغفرت فرما۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024