آج سے 60 سال پہلے الشیخ خلیفہ بن حمد بن عبداﷲ آل ثانی جب وزیر تعلیم تھے موجودہ امیر قطر الشیخ تمیم کے دادا تو اخوانی خطرے کو محسوس کیا کہ وہ دوحہ کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ بیوروکریسی پر اثرانداز درسی کتب کی نصابی تشکیل اور کلاس رومز کے معاملات پر بھی قابض ہو رہا ہے۔ عبدالبادی صقر ڈائریکٹر ایجوکیشن تھے جو بعدازاں قطری نیشنل لائبریری کے صدر بنے۔ الشیخ خلیفہ نے انہیں منصب سے ہٹایا اور انکی جگہ شامی دانشور احمد عبداﷲ عبدالدائم جو ساربون یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر چکے تھے کو ڈائریکٹر ایجوکیشن بنا دیا۔ ایک صحافی چند سال پہلے دمشق میں جا کر احمد عبداﷲ عبدالدائم سے ملے اور انکے ڈائریکٹر ایجوکیشن سے ازخود استعفیٰ کا سبب معلوم کیا۔ جواب میں دمشق کے دانشور نے کہا ”اخوان المسلمین ایک مافیا ہے جس نے دوحہ پر قبضہ کر رکھا ہے وہ بہت طاقتور ہے اور امیر قطر پر مکمل اثر و رسوخ رکھتا ہے یہ اثر و رسوخ نسلوں پر محیط ہے چونکہ احمد عبداﷲ عبدالدائم کا موقف تھا کہ اسلام کو سیاست میں استعمال نہیں کیا جا سکتا لہذا اس موقف پر اصرار کے بعد اخوان المسلمون نے اسے مجبور محض بنا دیا کہ وہ استعفیٰ دے کر چلا جائے چنانچہ وہ مجبوراً دوحہ چھوڑنے پر آمادہ ہو گیا“ 1950ءمیں مصری اخوان المسلمون کے افراد بطور ٹیچر قطر میں آئے پھر قدم بقدم اور آہستہ آہستہ مرکز اقتدار پر قابض ہو گئے وہ قطری شاہی خاندان کے قریب ترین مشیر اور دانش مرکز بنتے چلے گئے یہ سب کچھ تجویز کرنے والا الشیخ یوسف القرضاوی ہے۔ موجودہ امیر قطر الشیخ تمیم آل ثانی کے والد الشیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی الشیخ القرضاوی کے زیر اثر حماس اور سابق مصری صدر محمد مرسی کے مدد گار بنے۔
یوسف القرضاوی 1960ءمیں قطر میں آئے۔ انہوں نے قطر میں ”مفتی اکبر“ کے منصب پر تعیناتی کو ناممکن بنا دیا ان کا اصرار تھا کہ اب وہی دوحہ میں سب سے بڑی مذہبی اتھارٹی ہیں۔ یوں دوحہ اقتدار انکے سامنے سرنگوں ہو گیا۔ سعودیہ میں مفتی اکبر کا منصب آل الشیخ کو دائمی طور پر حاصل ہے۔ گویا الشیخ یوسف القرضاوی مفتی اکبر نظام سعودیہ کے انہدام کا راستہ ا پنا کر سیاسی و نظریاتی استحصال کرتے رہے۔ ذرا غور کریں افغانستان کے طالبان کو قطر میں بلوا کر ‘ دفتر قائم کرانا‘ امریکیوں سے رابطے قائم کروانا‘ عملاً پاکستان کی اہمیت کے خاتمے کا نام تھا مگر قطر اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے افغانی طالبان کی سرپرستی کو استعمال کرتا رہا ۔ طیب اردوان اور قطری اخوانی تعلق نے قطری ترکی عسکری اتحادی بننے کا جواز پیش کیا۔ دلچسپ بات دیکھیں داعش نے شامی و عراقی تیل کنو¶ں سے جو تیل حاصل کیا وہ قطری کاروباری شخصیات کے ذریعے ہی ترکی میں جا کر فروخت ہوتا رہا تھا۔ دوسری طرف ایرانی سیاست بظاہر کامیاب ہے کہ اس نے قطری تعلقات سے خلیجی تعاون کونسل میں گرہ بندی پیدا کر کے دشمن عربوں کو منقسم کر دیا ہے ایران نے خود کو امریکی و یورپی اذہان کے سامنے جمہوری‘ تہذیبی ترقی یافتہ معاشرہ بنا کر پیش کیا جہاں ملوکیت نہیں بلکہ جمہوریت ہے‘ جبکہ عرب غیر جمہوری ملوکیت اور غیر مہذب زوال شدہ جامد معاشرہ ہے مگر ریاض کانفرنس نے ایرانی کھیل کو ناکام بنا کر امریکہ کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے اگر قطری طریق کار کا جائزہ لیا جائے تو اس نے شام‘ لیبیا‘ مصر میں بھرپور عدم استحکام کردار پیش کیا ہے ایران سے قریبی تعلقات کو سیاسی طور پر استعمال کیا ہے۔ عرب حکومتوں کے انہدام میں الجزیرہ کا 20 سالہ استعمال پین عرب ازم کے اخوان کا سیاسی استعمال مگر خود قطر میں خاندانی ملوکیت کیسا دلچسپ تضاد ہے؟ کیا قطری حمایت یافتہ مصری صدر محمد مرسی نظریاتی یوٹوپیا (The ocratical Utopia) ریاست کے حکمران نہیں بن گئے تھے شائد قطری ملوکیت بھی اسی یوٹوپیا سیاست میں اسیر ہو کر عرب بھائیوں کو دشمن بنا چکی ہے۔اخوان المسلمین اور پاکستان کی جماعت اسلامی 1979ءکے ایرانی انقلاب کی پرجوش حامی رہی ہیں یوں مصری اخوان المسلمین اور امام خمینی کے مابین قرب ہوا۔ مولانا مودودی کی ”خلافت و ملوکیت“ کتاب شیعہ مفکرین و مجتہدین کےلئے وجہ دوستی بن گئی اور مولانا مودودی امام خمینی کے پسندیدہ مفکر بن گئے اور مصری اخوانی بھی موجودہ ولایت فقہیہ علی خامینائی سید قطب سے بہت متاثر ہوئے اور ان کی ایک کتاب کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا جس سے ایرانی علماءو مجتہدین اور مصری اخوانی قیادت میں مزید سیاسی و نظریاتی قرب ہوا۔ اخوان اور ا لشیخ یوسف القرضاوی نے خود کو عہد حاضر کے مسائل حل کرنے والے کے روپ میں پیش یوں کیا کہ وہ جرا¿ت سے اجتہاد کرتے رہے اور اپنے اجتہاد سے ”سیاسی اسلام“ اور ”دینی اسلام“ کی عملی تطبیق کا نادر مگر دشوار راستہ استوار کرتے رہے۔ ”الجزیرہ“ عملاً اخوانی ابلاغی جارحانہ پین عرب ازم رویے کا نام ہے۔ صدر محمد مرسی الجزیرہ کا پیش کردہ ہیرو ہے جونہی جنرل عبدالفتاح السیسی اخوانی جنرل نے اقتدار پر قبضہ کیا تو الجزیرہ جنرل السیسی اور اسکے حامی سعودیہ و امارات و بحرین کا مضبوط دشمن بن کر سامنے آیا۔ اس سے پہلے ”عرب بہار“ میں الجزیرہ کا بڑا کردار خلیجی و سعودی ملوکیت کا دشمن بنا رہا۔ ہم ”نقشہ“ پیش کر رہے ہیں کتنے عوامل ایک ہی جگہ پر اکٹھے ہوگئے ہیں۔ یہ جگہ قطر ہے۔ قطری وزیر خارجہ الشیخ محمد نے کچھ عرصہ پہلے کہا ہے کہ (خلیجی و سعودی) پڑوسی قطر کی کامیابیوں پر حسد میں مبتلا ہیں اس لئے کامیابیوں کا راستہ بند کر دینے کے لئے قطر کا بحری‘ بری‘ فضائی محاصرہ کیا گیا ہے۔ اصلاً قطر اور اخوانی کیا چاہتے ہیں ؟ اخوان عرب دنیا میں اپنا سیاسی نظریاتی فلسفہ نافذ کرنے کا متمنی ہے۔ موجودہ امیر قطر الشیخ تمیم کے والد الشیخ حمد بن جاسم آل ثانی کا قذافی فلسفے کا ساتھی بن کر سعودیہ جغرافیہ کو توڑ کر قطیف کے مشرقی علاقے میں شیعہ ریاست کے قیام اور حجاز و حرمین شریفین کو آل سعود سے چھین لینا ایسا سیاسی خواب تھا جس کیلئے وہ عملاً ایران دوست آسانی سے بن گئے۔ الجزیرہ کو انہوں نے ابلاغی جارحیت کے لئے بطور پر سیاسی ہتھیار بہت کامیابی سے استعمال کیا اور الجزیرہ میں اخوانی شہ دماغ مکمل قابض و فیصلہ ساز ہیں۔ حماس‘ القاعدہ ‘ النصرہ فرنٹ وغیرہ جو سیاسی فتوحات اور ملوکیت سے قتال کے ذریعے نجات کا راستہ ہے کو استعمال کرتے ہوئے الشیخ حمدکے مسلح گروہ بنتے چلے گئے۔ داعش انہی عناصر کا ایک عراقی نام تھا جو شام تک گھس گیا۔ شاہ عبداﷲ کے زمانے میں سعودیہ کو الشیخ حمد بن خلیفہ سے مسلسل شکایت رہی کہ وہ الجزیرہ اور جہادی گروپوں کے ذریعے سعودیہ و آل سعود دشمن ہیں۔ ان پر قطیف اور مشرقی صوبے کے سعودی شیعہ کو بغاوت پر اکسانا اور ان کی مالی مدد کرنے کا الزام دو ٹوک لگتا رہا۔ چنانچہ امارات ‘ سعودیہ اور امریکی شدید دبا¶ پر الشیخ حمد بن خلیفہ کو اقتدار چھوڑنا پڑتا اور موجودہ امیر الشیخ تمیم نامی اپنے بیٹے کو منتقل کرنا پڑا۔ نئے 36 سالہ فیصلہ ساز الشیخ تمیم کا ریاض سے اتفاق ہوا کہ وہ اپنے والد حمد کی خارجہ پالیسی اور سعودیہ دشمنی کو ختم کر کے الجزیرہ کو بند کر دینگے مگر اقتدار سنبھالنے کے صرف ایک ہفتہ بعد بالآخر بول پڑے کہ وہ ایک رات میں اپنے باپ کی پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرسکتے جس سے ناراض ہو کر ریاض‘ منامہ‘ ابوظہبی نے اپنے سفراءدوحہ سے بلوا کر لاتعلقی اپنا لی۔
امارات میں2014 ءمیں معاہدہ ہوا کہ قطر سعودیہ کے اعتراضات کو ختم کرنے کا عہد کرتا ہے۔ اسکی ایک وجہ یمن میں سعودی حوثی کشمکش کا عروج تھا جس نے مصالحت پر آمادہ کیا مگر صدر مرسی کے اخراج سے پیدا شدہ صورتحال نے قطر کو اس معاہدے سے بھی منحرف کر دیا اور وہ حوثیوں کا بھی ایرانی راستے سے مدد گار بن گیا۔ تیسرا عجوبہ یہ کیا کہ ایران کے راستے بشار الاسد سے قریبی رابطہ قائم کرکے جنگ بندی پر شامی تباہی کو نئے نئے انفراسٹرکچر کی نعمت فراہم کرنے میں قطری مال و دولت خرچ کرنے اور تعمیراتی منصوبے مکمل کرنے کی یقین دہانی بشار الاسد کو کروائی۔ مختصر ترین ریاست؟ مگر گیس و تیل کی عطاءکردہ دولت نے قطر کو ریاض‘ منامہ‘ ابوظہبی‘ دوبئی جیسا سیاسی فعال کردار بننے کا خواب عطاءکیا ہے۔ کیا قطر و سعودیہ و امارات و بحرین اور مصر میں دوبارہ مفاہمت ہو سکتی ہے؟ چونکہ قطر سے مطالبات سخت ہیں۔ قطری امارات خود کو دلیر ثابت کر رہی ہے۔ طویل ترین محاصرے میں اپنے معاشی اثاثے جات کو استعمال کرنے کا اشارہ دیکر استقامت پیش کر رہی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024