قارئین یہ حقیقت ہے کہ انسان جہاں ایک دوسرے کا بہترین رازدار ہے، وہاں وہ بجائے خود بھی ایک راز ہے لیکن ایسا لگتا ہے اُس نے اپنا سارا زور چاند پر پہنچنے اور کائنات کے سربستہ راز کھوجنے پر لگادیا ہے، خود سے خود تک نہیں پہنچ سکا۔ اس حوالے سے گویا تمام انسان بنیادی طور پر رنگ برنگی سربہ مہر بوتلوں کی مانند ہیں جو قدرت کے دست غیب میں ایک پراسرار انداز سے برسر عمل ہیں۔ جس طرح گہرے رنگ کی کسی منہ بند بوتل کو دیکھ کر آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اس کے اندر کیا ہے؟ اسی طرح آج کے انسان نے بھی اپنے اوپر اتنے بڑے بڑے مختلف مصنوعی خول چڑھا رکھے ہیں کہ کوئی کسی کے بارے میں صحیح طور پر نہیں جان سکتا کہ اس کے دل و دماغ میں کیا کچھ بند ہے۔ اس جانکاری کی صرف ایک صورت ممکن ہوسکتی ہے کہ وہ سر بہ مہر بوتل ہی خود کسی جواز کے تحت اپنے اندرونی انتشار و خلفشار اور شدید دباﺅ کی وجہ سے پھٹ پڑے یعنی اُس کا کارک اُڑ جائے، ڈھکنا اُٹھ جائے، کھل جائے یا ٹوٹ جائے، لیکن المیہ یہ ہے کہ گو کہ یہ عمل ایک دوسرے کی پہچان کے لئے انتہائی مبارک اور مفید ثابت ہوسکتا ہے، آج کا خالی اور اخلاقی تنزل کا مارا ہوا مصنوعی انسان اس درجہ کمزور بلکہ بزدل ہے کہ سوچتا ہے خدا جانے اس بوتل سے سچ کا کونسا جن نکل آئے، کس قسم کی بدبو یا خوشبو نکل پڑے حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ بات ہر لمحہ اس کے علم میں رہنی چاہئے کہ دراصل یہی بدبو یا خوشبو ہی انسان کے اندر کی چھپی ہوئی وہ نیکی یا بدی ہے جوحادثاتی طور پر باہر کی طرف راہ بنا لیتی ہے اور جو اس کے پاس مدمقابل کی شناخت کا بہترین اور حتمی وسیلہ ہے۔ لہٰذا اگر ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو گھبرایئے ہرگز نہیں بلکہ اسے خدا کی جانب سے عطائے خاص سمجھ کر خوش آمدید کہئے کیونکہ انسان اتنا دوغلا، اتنا پراسرار اور پیچیدہ جانور ہے کہ صدیوں تک اس کے اندر کی پراسرار کیفیات اور نیت تک آپ نہیں پہنچ سکتے۔ اس کی روح میں ڈول ڈال کر اس کے اندر کا حتمی سچ اگلوانا غیر معمولی حد تک مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن کام ہے۔ چنانچہ یہ بہتر نہیں ہے کہ جب بوتل کا اچانک کارک اُڑتا ہے، اس کے اندر کا سارا مادہ مواد باہر آجاتا ہے تو آپ اپنے مدمقابل کے من کے سارے گند، گناہ اور بدی بدنیتی سے واقف ہوجاتے ہیں اور اسے سمجھنے کی بہتر پوزیشن میں آجاتے ہیں۔ آپ اچانک اس کے ملمع اُتر جانے کا صدمہ مت لیجئے کہ آہ کیا شخص تھا اور کیا نکلا؟ آپ نے اسے کیا سمجھا تھا اور وہ کیا ثابت ہوا؟ بلکہ اس پہچان سے فائدہ اٹھایئے کیونکہ یہی کریہہ المنظر پہچان ہی آپ کو اس کے ہاتھوں پہنچنے والے آئندہ کے مزید نقصان سے خبردار کرے گی۔ یہ کام آپ اس سے زبردستی ہرگز نہیں کروا سکتے تھے۔ لہٰذا جو کچھ ہوا، وہ اچانک اور یک لخت ہی ہوسکتا تھا اور جو گہرا اور سنہرا ملمع چڑھے ہونے کی وجہ سے اس سے قبل ممکن نہ تھا اور اب اگر یہ ہوگیا ہے تو یہ آپ کے حق میں بلکہ کلی مفاد میں ہے۔
لیکن قارئین اصولاً ہونا تو یہ چاہئے کہ انسان کو شیشے کی طرح اندر باہر سے یکساں صاف و شفاف اور پاک ہونا چاہئے، اسے اپنے اندر کے بدنیتی کے گھپ اندھیروں، دوغلے پن، دوہرے پن اور منافقت کو ہر لمحہ شکست دیتے رہنی چاہئے تاکہ اس کی دنیا اور آخرت دونوں سنور سکیں، خوف خدا دل میں رکھنے سے اندر کا سارا میل دھل سکتا ہے، مگر صد افسوس آج دنیا کا تقریباً ہرفرد دوغلا اور دوہرا ہوچکا ہے۔ اندر اور باہر اس کی دو الگ دنیائیں بس رہی ہیں، تبھی شرفاءکا جینا محال ہورہا ہے۔ ہر نیکوکار پر ہر لمحہ سنگباری کی جاتی ہے جبکہ وہ بے چارہ یہ کہہ کر چپ ہو جاتا ہے کہ ....
زمانہ مجھے مارتا کیوں نہ پتھر
زمانے کا میں آئینہ ہوچکا ہوں
سو آخر میں کہنا یہ ہے کہ قارئین کہ خدارا اپنا اندر اور باہر یکساں طور پر اور مکمل طور پر صاف اور شفاف رکھئے، ہر پل دل کو یادِ الٰہی کے نور سے منور رکھئے جس کی برکت سے کسی قسم کے گناہ کا اندھیرا، دوغلاپن اور بدی برائی اس میں داخل نہیں ہوسکے گی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024