اردو نہ صرف ہماری قومی زبان اور ہمارے علیحدہ قومی تشخص کی امین ہے بلکہ یہ ہماری روایت‘ ثقافت‘ تہذیب و تمدن اور قومی عظمت و وقار کی محافظ بھی ہے لہٰذا ہمیں اردو کو ذریعہ تدریس کے طورپر اپنانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی ہمیں احساس کمتری کا شکار ہونا چاہئے بلکہ ہمارا سر تو فخر سے بلند ہونا چاہئے کہ ہم اپنی ہی قومی زبان اردو میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جیسا کہ دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے۔ تمام ممالک میں ذریعہ تعلیم انکی اپنی ہی ملکی زبان ہے۔ ایک ہم ہیں کہ 68 سال بعد بھی غیرملکی زبان انگریزی کے سحر میں گرفتار ہیں اور ابھی تک فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے کہ ذریعہ تعلیم کیا ہو؟ یہی وجہ ہے کہ دوسری قومیں ترقی کی منزلیں بڑی تیزی سے طے کر رہی ہیں اور ہم سوچ بچار میں لگے ہوئے ہیں۔ ذرا غور فرمایئے اگر جرمن‘ فرانس‘ روس‘ چین‘ ملائشیا وغیرہ کو یہ کہا جائے کہ آپ ہماری قومی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طورپر اپنا لیں تو وہ کیا ایسا کرنے پر رضامند ہونگے؟ تو پھر کیا ہمارا ہی علیحدہ قومی تشخص نہیں ہے؟ کیا ہماری اپنی کوئی شناخت نہیں ہے؟ کیا ہمیں اپنا قومی وقار عزیز نہیں ہے؟ کیا ہم خوددار‘ باغیرت اور باشعور قوم نہیں ہیں؟ کیا ہماری کوئی زبان نہیں ہے؟ ہمارے اسلاف نے وطن عزیز پاکستان کیلئے جو بے مثال قربانیاں دیں‘ کیا ان کا کوئی مقصد نہیں ہے؟ اگر ہم نے دوسروں کے کلچر اور زبان کو ہی اپنانا تھا تو پھر بانیان پاکستان نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟
اگر ہم اردو کو عملاً قومی زبان تسلیم کر لیں جوکہ ہے تو ذریعہ تدریس بھی اردو ہی ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بچے کی مادری یا قومی زبان کوئی اور ہو اور وہ تعلیم کسی اور زبان میں حاصل کرے جو علم اپنی زبان میں آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کسی غیرملکی زبان میں قطعاً ممکن نہیں ہے۔ ’’غیرملکی زبان کی وساطت سے جو علم حاصل ہوتا ہے‘ وہ عمیق مشکل سے ہو سکتا ہے اس لئے یہ قدرت ہم میں سے بہت کم کو نصیب ہوتی ہے کہ اپنی زبان کی طرح کسی غیر زبان کو بھی ایسا اپنا لیں کہ اس میں خیالات کے افہام و تفہیم میں ہمیں دقت نہ ہو۔‘‘ یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ بچے کی قوتِ نمو اس زبان کے بار کو محسوس نہیں کرتی جس سے کہ گہواروں کی فضائوں میں آشنا ہوتا ہے۔ اسکے برعکس ایسی زبان کے بوجھ سے اسکی قوت نمو مسلسل متاثر ہوتی ہے جس سے وہ گہوارے اور ایام طفلی میں ناآشنا رہا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیرمانوس یا غیر مادری زبان میں علم کا حصول دیر طلب ہوتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ پہلے تو زبان سیکھنے پر وقت صرف ہوتا ہے۔ کیونکہ زبان کو سیکھے بغیر خیالات اور افکار تک رسائی ممکن ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی زبان میں علوم جس قدر تیزی سے پھیلائے جا سکتے ہیں‘ وہ علوم غیر زبان میں اتنی سرعت سے نہیں پھیل سکتے۔ مثال کے طورپر ہمارے ملک میں انگریزی زبان میں جتنے ادیب اور باکمال شاعر پیدا ہوئے ہیں‘ انکی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے‘ لیکن اپنی قومی زبان اردو نے جو علماء فضلاء پیدا کئے‘ وہ اصحاب علم و دانش قومی زندگی کی ترقی اور فلاح کے ضامن قرار پائے۔ ان کا شمار کہیں زیادہ ہے۔ لہٰذا ہمارے لئے اپنی زبان اردو میں تعلیم حاصل کرنا ہی مناسب اور موزوں ہے اس میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں کو ایک زرخیز زبان میں ہونی چاہئے۔ یہ ہی وہ زبان ہے جو ہندوستان کے مسلمانوں کے تمدنی ارتقاء کی بنا پر معرض وجود میں آئی۔ یہ ہماری قومی زبان ہے۔ اپنی قومی زبان کے علاوہ کسی غیرملکی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ گزشتہ دنوں جب چینی صدر نے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدات کئے تو ہمارے حکمرانوں کی خوشی سے حالت دیدنی تھی۔ یہاںتک کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے ایک تقریب میں بچوں کو چینی زبان پڑھنے‘ سیکھنے کی ہدایت کر دی حالانکہ یہی وزیراعلیٰ صاحب پہلے اول جماعت سے انگریزی لازمی قرار دے چکے ہیں۔
اگر ہم دنیا کے ماہرین تعلیم کی طرف رجوع کریں تو ہمیں اس بات کا واضح طورپر اندازہ ہو جائے گا کہ سب اسی پر متفق ہیں کہ ذریعہ تعلیم صرف اس زبان کو قرار دیا جا سکتا ہے جو کسی قوم یا ملک میں عام طورپر بولی اور سمجھی جاتی ہو۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ فنی لحاظ سے بھی اردو زبان انگریزی کے مقالے میں زیادہ زرخیز اور ذریعہ تعلیم بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اردو زبان میں حروف تہجی کی تعداد 36 چھتیس اور انگریزی میں چھبیس ہے۔ کوئی بھی باشعور انسان یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ 36 ستونوں والی عمارت چھبیس ستونوں والی عمارت سے زیادہ مضبوط اور کشادہ ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے کسی بھی ملک کے ماہرین تعلیم روسو‘ پستانوری‘ ہربرٹ‘ فروہل‘ مانٹی سوری سے جان ڈیوی تک اور اسکے بعد بھی کسی بھی ماہر نصابیات نے کسی بھی غیر ملکی زبان کی تدریس کو پرائمری سطح پر لازمی کرنے کا نہیں سوچا۔ یہ سوچ ہی سراسر غیرتعلیمی‘ غیرمنطقی اور غیرتعمیری ہے کیونکہ اس طرح نہ تو کسی قوم کی نظریاتی بنیاد قائم رہ سکتی ہے اور نہ اس کو اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے تعلق قائم رہ سکتا ہے۔ دنیا بھر کے آزاد ممالک میں غیرملکی زبانوں کیلئے تدریسی ادارے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی طالبعلم ثانونی یا یونیورسٹی تعلیم کے بعد انگریزی زبان یا کوئی اور غیرملکی زبان سیکھنا چاہتا ہے تو وہ ان تدریسی اداروںسے کچھ مخصوص عرصے میں بخوبی سیکھ سکتا ہے۔ اگر کوئی غیرملکی زبان میں مہارت حاصل کرنا چاہے تو اس کے بھی مواقع ہوتے ہیں۔ جب ساری دنیا میں غیرملکی زبانوں کی تدریس کا یہ طریقہ رائج ہے تو ہم اپنے سارے بچوں پر انگریزی اور وہ بھی پہلی جماعت سے کیوں مسلط کر رہے ہیں؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024