حقیقی قیادت کا فقدان
میراث ہے!
کون کہتا ہے کہ پاکستان کی ارضِ جمیل
اے رئیسـ! اس ملت آزاد کی میراث
ساتھیو! یہ قوم چند افراد پر ہے مشتمل
دوستو! یہ ملک چند افراد کی میراث ہے۔
ملک کاسب سے بڑا قومی چور اگر آج بھی آزاد اور حکومت میں ہے تو جیلوں میں موجود روٹی، سائیکل ، بجری سیمنٹ، سریا، موبائل چوروں کو بھی آزاد کر دینا چاہیے۔ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت ہے، عوام اس رویے کے خلاف کھڑی ہو جائے۔ سپریم کورٹ کو کیوں کہنا پڑا؟غلام قوم کے معیار بھی عجیب ہوتے ہیں ، شریف کو بیوقوف، مکار کو چالاک، قاتل کو بہادراور مالدار کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں۔ ایک طبقاتی معاشرے میں غیر جانبداری دراصل منافقت کا دوسرا نام ہے۔ ترکی کا صدر طیب اردگان بھی تو ہے جس نے نہ تو طائر لاحوتی کی بڑھک مار کر الیکشن جیتا ہے اور نہ ہی تین سال میں ساٹھ سال سے زیادہ قرضہ لیا ہے۔اس نے آٹھ سال میں ترکی کے قرض اتار کر آئی ایم ایف کو کہا اب تمہیں قرض چاہیے تو ترکی سے لے لو۔ اس کا بھائی وزیر اعلیٰ نہیں اس کی آج بھی فروٹ کی چھوٹی سی دوکان ہے ۔نہ اس کے ملک کی آدھی آبادی بھوکی سوتی ہے اورنہ ہی اس کے بچوں کی لندن میں اربوں روپے کی جائیداد یں ہیں۔اصلی جمہوریت کے فوائد دیکھتے ہوئے جو اس کے سپورٹر نہیں تھے وہ بھی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔
حکمرانی!
کیسے جمہور کیا عوام اے دوست
ملک و ملت کی یہ کہانی ہے
چند افراد کی قیادت میں
چند کنبوں کی حکمرانی ہے
زندہ ہے بھٹو۔ یار لوگ بھی نیا سلوگن دینے جارہے ہیں۔ زندہ ہے نواز شریف۔ کیا فرق پڑتا ہے؟ بھٹو نے 1973ء نیا متفقہ آئین دیا۔ اس نے لوگوں کو سیاسی شعور دیا ۔ جمہوریت اسی کے دم خم سے اپنی پٹڑی پر چل پڑی۔ پاکستان کو ایک پہچان دی۔ مسلم امہ کا محسن ٹھہرا ، اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا۔ ایٹم بم بنانے کا بیڑا اٹھایا غریب کا بازو بنا، ہاریوں کو زمینیں دیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے کمبل میں ایک بھیڑیا گھس گیا ہے۔ دنیا میں سب لوگ ایک جیسے تو نہیں ہوتے۔ نیکی اور بدی تو ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ میاں صاحب نے بھی تو کوئی نہ کوئی راستہ پکڑنا تھا۔ کیا ہوا وہ بدی والے راستے کا انتخاب کر بیٹھے۔ پیسہ تو ہر شخص کی بنیادی ضرورت ہے۔ تو پھر میاں صاحب ہر شخص کی تعریف پر پورا اترنے والے راستے پر کیوں نہ چلیں۔ ایک پنتھ دوکاج۔ زرداری کو بھی مات دینی ہے۔ مقابلہ تو پیسوں کا ہے۔ ورنہ وہ آگے نکل جائے گا۔ سرے محل اس نے خریدے۔ کیا ہم مے فئیر فلیٹس خرید کر کوئی جرم کر بیٹھے ہیں۔ اس کی باری تو سب خاموش رہے۔ وہ صاحب اولاد ہے اس نے اپنی اولاد کو کچھ نہ کچھ وراثت میں دینا تو تھا۔ تو میاں صاحب کی اولاد کیوں محروم رہتی۔ نیکی کا زمانہ گذرے تو مدت ہوگئی ہے۔ میاں صاحب کے پیشرو تو کچھ عرصہ پہلے حکومت کے عہدے کو داغ مفارقت بخش گئے۔ ایک نہ ایک دن میاں صاحب نے بھی تو جاناتھا ، پھر کس منہ سے جاتے۔ بچے پوچھیں گے نہیں ہمارے لیے کیا لائے ہو ۔ رہی بات اقتدار میں اپنی اولاد کو لانے کی۔ تو یہ کون سے اچنھبے والا کام کیا ہے۔ آخر کو بلاول بھی تو آگیا ہے نہ سیاست میں۔ مریم آگئی تو لوگوں کے پیٹ مروڑ اٹھنے لگے۔ سب کا بنیادی حق ہے۔ ہاتھوں میں !
مقفل کیوں نہ ہوں اس قوم پر ابواب خوش حالی
سمٹ آئی ہیں ساری کنجیاں کچھ بند ہاتھوں میں
تہی دستی نہ ہو مقسوم کیوں کر عام لوگوں کا
حکومت چند ہاتھوں میں ہے، دولت چند ہاتھوں میں
دولت جن پر عاشق ہو تو ہم کون ہیں ان کو دوش دینے والے۔ قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہے۔ جب سے سہولت کاری عیاں ہوئی ہے تب سے یہ لوگ پریشان ہیں کہ کس کم بخت نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ ورنہ خاموشی سے کیا کچھ نہیں ہو رہا تھا۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی ہو رہی تھی۔ اب یار لوگوں نے ڈکشنریاں کھول لی ہیں۔معمولی سی معمولی بندہ بھی دل کھول کر سہولت کاری پر تان و تشنیع میں لگا ہوا ہے۔ فکر والی بات نہیں یہ تو صرف ہمارے کچھ مہربان ان کو مصروف رکھنے کے لیے ایسی بے پرکی اڑا دیتے ہیں تا کہ لوگ اس پر سیر ہو لیں۔ اتنی جلدی بھی کیا ہے پہلے والا باب تو بند ہو لینے دیں، تب تک ہم اس سے مکمل مستفید ہو لیں۔ پھر اس پتے کو پبلک کر دیں گے۔ آخر لوگوں کے پاس کوئی نا کوئی موضوع تو ہونا چاہیے۔ یہ انگیج ہوں گے تو ہم اگلے مر حلے کو سر کر لیں گے۔ ہمارا جینا مرنا تو اسی کرپشن کے سر ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ دنیا ترقی کر رہی ہے ۔ اور خود پاکستان میں صنعت ، تجارت اور تعلیم میں کایا پلٹی ہوئی نظر آتی ہے لیکن نئی زندگی ، نئی معیشت اور نئی تہذیب کے ارتقاء سے نئی قیادت پیدا نہیںہو رہی ۔الٹا یہ ہورہا ہے کہ بلاد کار جاگ اٹھے ہیں اور ہر طرف چور چور کی صدا بلند ہورہی ہے۔