ڈی جی خان کے مسائل کون حل کرے گا؟
مقامی منتخب نمائندوں کی عدم توجہی اور حکومت پنجاب کی مسلسل نظرانداز کرنے کی پالیسی کی وجہ سے آج بھی ڈیرہ غازی خان ’’زبوں حالی شکار ہے‘‘مسائل کم ہونے کی بجائے مزیدبڑھے ہیں۔ جنوبی پنجاب کا اہم ترین شہر ہونے کے باوجود ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ بنیادی سہولیات کا فقدان تاحال برقرار ہے۔ بجلی کی طرح سوئی گیس فراہمی بھی پورا سال گرمی ہو یا سردی دونوں موسموں میں بڑی مشکل سے صبح شام بالترتب دو گھنٹے سے زائدبڑھ نہ سکی ساراسال بجلی اور گیس بے رحمانہ لوڈشیڈنگ کے خلاف عوام سڑکوں سراپااحتجاج رہے ہیں ۔ یہی حال پینے کا صاف پانی کی فراہمی کا ہے دیرینہ مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے ۔پبلک ہیلتھ اور میونسپل کارپوریشن سمیت سبھی اس سلسلے میں ناکام ہیں۔ ڈیرہ غازیخان کے عوام اس ترقیاتی یافتہ دو ر میں بھی صاف پانی سے محروم ہیں شہری آبادی سیوریج شدہ پانی پینے پر مجبور ہے جبکہ دیہی علاقوں میں صورت حال اس سے بھی خراب ہے۔ ڈیرہ غازیخان کا شمار پنجاب کے ان اضلاع میں کیا جاتا ہے جہاں ہیپاٹائٹس سی بی اور ایچ آئی وی اینڈ ایچ آئی وی ایڈز ،دمہ اور پھیپھڑوں کامرض تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ ان امراض کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ہیلتھ چارٹ‘‘ میں ضلع ڈیرہ غازیخان دوسرے نمبر پرہے ۔یہ صورت حال بہت گھمبیر ہوتی چلی جارہی ہے۔ اگرچند دن قبل صحت،میلے میں دیکھاجائے تو ہیپاٹائٹس کے425اور دمہ کے786 اور پھپھڑوں 781مریضوں کا چار دن میں اندراج ہوچکا ہے۔ اور اس صحت میلے میں 4510 مریضوں کی رجسٹریشن اورممکنہ سہولیات دی جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ ایچ آئی وی اور ایچ آئی وی ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد پندرہ ہزار سے زائد ہے ۔ہیپاٹائٹس کے علاوہ امراض گردہ و مثانہ کی شرح میں بھی یہ ضلع بہت آگے ہے۔ٹیچنگ ہسپتال میں رجسٹرڈ ایسے مریضوں جن کا ہفتہ میں ایک بار یا دو بار ڈائلاسز ہوتاہے جن کی تعداد پانچ ہزار سے بھی تجاوز کرچکی ہے ’’ مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مترادف اس کے مقابلے میں فراہم کی جانے والی سہولیات ناکافی ہیں ۔ مثال کے طور پر ڈائلاسز سنٹر میں کروڑوں روپے مالیت کی صرف سات مشینیں ہیں جبکہ ضرورت کم از کم 30 سے زائد ڈائلاسز مشینوں کی ہے ۔ ہر سال گورنمنٹ وعدہ کرتی ہے دس یا پندرہ مشینیں فراہم کی جارہی ہیں مگر یہاں بھی صرف وعدوں سے کام چلایاجارہا ہے۔ ممبران صوبائی وقومی اسمبلی کی عدم دلچسپی کی وجہ سے سرکاری محکموں میں بیٹھی بیورو کریسی نے بھی عدم توجہی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے حکمرانوں نے بھی اس ضلع کو نظر اندازکردیا ہے ۔ موجودہ حکومت کو چار سال مکمل ہوگئے ہیں مگر ڈیرہ غازیخان میں تاحال کوئی قابل ذکر بڑا منصوبہ نہ تو منظور ہوا ہے اور نہ ہی شروع ہوا ہے ۔ جنوبی پنجاب کے عوام اگر الگ صوبہ کے قیام کی بات کرتے ہیں تو اس صورت میں وہ کیا غلط کرتے ہیں علاقائی محرومیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں ۔ جب یہ ذکر ہوتا ہے کہ یہاں سے صدرپاکستان ، گورنر پنجاب،وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدوں پر رہنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کرسکے۔ ہمیں خوشی کم اور شرمندگی زیادہ ہوتی ہے ڈیرہ غازیخان کے سیاست دان چاہے تو صدر بنے یا گورنر، وزیر اعلیٰ مگر ڈیرہ غازیخان کی حالت کو نہ بدل سکے ۔ مسائل اس دوران بڑھتے جارہے ہیں اب یہ حالت ہے کہ اندورن شہر کوئی گلی محلہ یا سڑک ایسی نہیں جو صیح حالت میں ہو سیوریج سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ بلدیاتی اداروں نے کام شروع کیا تو عوام کا خیال تھا کہ کچھ بہتری آئے گی مگر ایسا نہیں ہوا میونسپل کارپوریشن ہو یا ضلع کونسل ہر دو ادارے اپنی افادیت ثابت نہیں کرسکے عوام تک ان اداروں کے قیام کے ثمرات تاحال پہنچ نہیں پائے۔ ان اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔پورا شہرفلتھ ڈپو بنا ہوا ہے ۔ آپس کی گروپنگ اورمفادات کی سیاست نے اس شہر کا بیڑہ غرق کیاہواہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام اب کسی نجات دہندہ کی رہ تکنے لگے ہیں ۔ڈیرہ غازیخان کے دیرینہ ،مسائل کے حل اور محرومیوں کے ازالہ کے لیے ضروری ہے مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت مقامی قیادت کو بااختیار بنایا جائے یونین کونسل سے لے کر میونسپل کارپوریشن اور ضلع کونسل کووسائل اور اختیارات دیئے جائیں ۔ ایم پی ایز اور ایم این ایز کو اپنا کام کرنے دیا جائے جوکہ ان کا بنتا ہے ۔ میونسپلٹی سہولیات کی فراہمی میونسپل کارپوریشن کا کام ہے ۔ فنڈز براہ راست بلدیاتی اداروں کو دیئے جائیں۔ حالیہ بحران کے بعد وجود میں آنے والی حکومتی ٹیم اور پارٹی قیادت کو اب سوچنا ہوگا ۔ کرپٹ عناصر اور اخباری بیانات والے کاغذی شیروں سے اب جان چھڑائی جائے ورکرز اور ورکرز کی حمایت یافتہ مقامی قیادت کو تشکیل دیا جائے ۔ نئے لوگوں پر بھی اعتماد کیا جائے۔ فوری طور پر ڈیرہ غازیخان کے ’’ میگا پراجیکٹ ‘‘ کا اعلان اور اس پر کام شروع کیا جائے۔ تاکہ آئندہ الیکشن میں عوام کا اعتماد حاصل کیا جاسکے۔