اسی دن کی طرف اشارہ تھا کہ ان کی داڑھیاں بھی ہوں گی ان کے لمبے لمبے سجدے بھی ہوں گے وہ بظاہر اللہ کے نام کی مالا بھی جبیں گے ان میں اور مومنوں میں پہچان، ذہنوں کو وسوسوں میں ڈال دے گی لیکن یاد رکھوں یہ پکے دشمن ہیں منافقین، جو الٹے پھرتے جا رہے ہیں یہود و نصاری کے نقش و قدم پر!! میرے اللہ تودیکھ رہا ہے ناں!! کہ علم کے فرض سے بغاوت ہو رہی ہے۔ جہالت اور اندھیروں کے طرفدار روشنیوں سے عداوت میں کس قدر سنگینی پر اتر آئے ہیں۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ ”جہالت ایک موت ہے اور جاہل لوگ چلتی پھرتی لاشیں“۔ لیکن یہ کیا ان چلتی پھرتی لاشوں نے میرے نونہالوں کو میرے دیس کے ہنستے مسکراتے پھولوں کو آناً فاناً روند ڈالا ہے۔ کتنی ہی ماﺅں کے خوابوں کو ریزہ ریزہ کر کے ان کی ممتاز بھری گود میں آنسوﺅں کا سمندر بھر دیا ہے۔ کس کس کا نوحہ کریں، کس کس ماں کو پرسا دیں۔
پشاور کی گلیوں سے اٹھنے والے جنازوں پر کلمہ شہادت کا ورد کرتے کرتے گنگ ہو جانے والی زبانوں اور شل ہو جانے والے دماغوں کے ساتھ کتنا بین کریں۔ اے اللہ کون مسیحا ہو جو اس اذیت ناک بربریت، درندگی حیوانیت کے چہرے سے خود ساختہ دین داری کا نقاب نوچ پھینکے۔ کیوں کہ آج بھی ہماری آستینوںمیں، ہمارے پچھلے دروازوں کی اوٹ سے ان انسانیت کے دشمنوں کے لئے دانہ دنکا مہیا کیا جاتا ہے۔ یہ سولہ دسمبر میرے نہتے بہادروں کی قصیدہ گوئی کا دن ہے جن کے ہاتھ میں قلم پکڑے تھے بارود نہیں!! یہ معصوم شہیدوں سے عہد کرنے کا دن ہے۔ اجڑی گود والی ماﺅں! بھائیوں کو کھو دینے والی بہنوں! نوجوانی کی دہلیز پر پہلا پہلا قدم رکھنے والے سجیلوں کے خون میں لتھڑے یونیفارم کبھی تلف نہ کرنا۔ زندگی کی فقط نو دس بہاریں دیکھنے والے جگر پاروں کے بچھڑنے کا زخم ہمیشہ تازہ رکھنا ورنہ روز محشر وہ ہمارا گریبان ضرور پکڑیں گے۔ لیکن آج ہم کس کا گریبان پکڑیں۔ آج سے تیس بتیس برس پہلے جہاد کے نام پر بوئے جانے والے بیچ کے کھیتی بان کو تو نہ زمین ملی نہ آسمان۔ لیکن ہماری نسلوں کو وہ پاتال کی نذر کر گیا۔ اب تو فسق و فجور اور نفاق کی فصلیں جوان ہو چکی ہیں۔ اس کھیتی بان نے جو مذہبی جنونیت کے ساتھ زبان اور بولیوں کو آپس میں دست و گریبان کیا تھا اس کا لاوا روز روز ہمارے جسموں پر گرتا جا رہا ہے بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کے حصول کے حرص زادے ماﺅں کی گود اجاڑتے چلے جا رہے ہیں۔ جہاد گردی کی جو فصل بوئی تھی وہ پوری قوم کو کاٹ رہی ہے۔ ذہنوں کو مفلوج کر دینے والی فضا کے پیدا گیر سے روز محشر خراج لینا نہ بھولنا۔ سنا تو یہی ہے کہ جو پہلے آتا ہے پہلے جاتا ہے باپ کی میت کو بیٹے کاندھا دیں یہ تو عام سی بات ہے لیکن میرے دیس کے کتنے ہی باپ اپنے کاندھوں پر جوان بیٹوں کو اٹھا کر منوں مٹی تلے دفن کرتے کرتے نڈھال ہو چکے ہیں!!! سنا تو یہی ہے اللہ! کہ تو نے شیطان کو حشر تک کے لئے کھلی چھٹی دے رکھی ہے لیکن یزید کی اولاد روز روز میرے کوچہ و بازار، میری مساجد و مدارس کو کربلا بنائے، ایسا تو نہیں کہا تھا ناں! آج ضیاءالحق کی قبر پر جا کر دہشت گردی کا بیج بونے کا تمغہ لگا کر آئیں یا سینہ کوبی کریں کہ اپنے بچوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھیں۔ سرکشی کا طوفان بپا کر دینے والوں کو پہچان تو سب رہے ہیں لیکن سولیوں پر کیوں نہیں لٹکائے جا رہے!! پاک فوج کو سلام کہ وہ تو اپنا کام کر رہی ہے لیکن جو کام عدلیہ اور انتظامیہ یعنی حکومت کا ہے وہ ہونا باقی ہے۔ اے اللہ تو دیکھ رہا ہے ناں! دہشت گردی کے مجرموں کو سزائے موت کا حکم سنائے جانے کے باوجود انہیںزندہ رکھا جا رہا ہے اور معصوموں کی زندگیوں کے چراغ گل کئے جا رہے ہیں۔ انسانوں کی کھال اوڑھے ان درندوں کو کس کی امان پر سزاﺅں سے مبرا رکھا ہوا ہے۔ ان کے پیچھے کن کے ہاتھ ہیں؟ توجانتا ہے ناں! بس پھر اپنے جلال اور قہر کو جوش میں لا .... کیونکہ یہاں کے مفاد پرستوں کے لئے تین دن کے قومی سوگ کے بعد پھر وہی غل غپاڑہ ہے۔ جیسے واہگہ کے شہیدوں کی قربانیوں کو بھانت بھانت کے نعرے نگل گے۔ ان معصوموں کے خون کو رائیگاں نہ کرنا۔ اللہ جی! میری اماں جنتوں والی کہا کرتی تھیں ”ات خدا دا ویر“ ہوتا ہے میں نے بھی پڑھا اور بچوں کو بھی پڑھایا کہ تو اپنے بندوں پر من و سلویٰ بھی اتارتا رہا اور دشمنوں پر کنکریاں بھی برسائیں میرے اللہ تو دیکھ رہا ہے ناں! ارباب اختیار ہماری ڈھال نہیں بنیں گے! اے اللہ ہماری ڈھال بن جا.... بقول ورد بزمی....
شرپسندوں کو مارنے کے لئے
پھر ابابیلیں بھیج دے مولا
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024