انیسویں صدی کی آخری اور بیسیویں صدی کی پہلی چند دہائیوں میں ساری دنیا میں عموماً اور برعظیم جنوبی ایشیاءمیں خصوصیت کے ساتھ ایسی عظیم شخصیات نے جنم لیا جنہوں نے نہ صرف اس خطے میں بسنے والے انسانوں کی تقدیر بدل کر رکھی دی بلکہ ان شخصیات نے بین الاقوامی سطح پر اپنی قابلیت اور صلاحیت کا لوہا منوایا۔
تاریخ ساز لوگوں میں رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس کا نام بھی شامل ہے آپ نے اس دور میں کہ جب آزادی ایک نقش موہوم بن کر رہ گئی تھی اور اس کا مطالبہ خود کشی کے مترادف تھا تمام خطروں سے بے نیاز ہو کر سر زمین جموں و کشمیر میں اس بنیادی انسانی حق کے حصول کا بیڑا اٹھایا۔ اس راہ میں آپکو جتنی مشکلات پیش آئیں انہوں نے آپ کے عزم و استقلال میں مزید اضافہ کیا اور آپ اپنے آخری دم تک اس عہد کی پاسداری کرتے رہے۔ جو آپ نے اس علاقے کے لوگوں کے ساتھ ان کی آزادی کے حصول کے حوالے سے کیا تھا۔ 1935ءمیں جب قائد اعظم سرینگر تشریف لائے تو آپ نے بحیثیت صدر آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی ایک استقبالیہ تقریب میں آپ کی خدمت میں سپاس عقیدت پیش کیا۔ اس ساکھ کو آپ نے اپنی زندگی کی سب سے سہانی گھڑی قرار دیا۔ 1940ءسے 1947ءتک غلام عباس نے ریاست جموں کشمیر میں تحریک پاکستان کے قافلہ سالار اور علمبردار کی حیثیت سے ریاست کے پست وبالا طول و عرض سے نعرہ پاکستان مضبوط و محبوب بنانے کے لئے شب و روز تگ دو کی۔
آپ نے قائد اعظم کے وفاداری ساتھی اور تحریک پاکستان کے ایک انتھک سپاہی کی حیثیت میں نظریہ پاکستان کی سربلندی کے لئے جو مجاہدانہ جرات مندانہ جدوجہد کی بلا شبہ تحریک پاکستان کا ایک سنہری ورق ہے۔ چوہدری غلام عباس بیگ وقت ہندو ، کانگریس اور اس کی حامی تنظیم کشمیر نیشنل کانفرنس فرقہ پرست ریاستی ہندوﺅں اور ڈوگرہ حکومت کا مقابلہ کرنا پڑا۔ آپ ان چاروں محازوں پر اسلامیانہ جموں کشمیر کی راہنمائی کرتے ہوئے چومکھی جنگ لڑی۔
1931ءسے 1947ءتک ڈوگرہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریکوں کی رہنمائی کی وجہ سے چودھری غلام عباس کو سات بار قید کیا گیا بار بار حکومت کے خلاف بغاوت کے مقدمے چلائے گئے لیکن آپ کے جذبہ میں کوئی کمی نہ آئی۔ تحریک کے آغاز سے 1939ءتک جس قدر مشکل مقام اور کٹھن موڑ آئے۔ چودھری غلام عباس نے بڑی خوبی اور اخلاص کے ساتھ مسلمانان جموں و کشمیر کی خوب رہنمائی کی۔ جون 1939ءمیں جب شیخ عبداللہ نے نیشنل کانفرنس کے نام سے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس میں نقب لگائی اور نیشنل کانفرنس کا قیام عمل میں آیا اور کچھ عرصہ تک مسلم کانفرنس میں پہلے والی جان نہ رہی، اس دوران کشمیر میں جموں و کشمیر مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سرینگر کے صدر پروفیسر ایم اے عزیز اور جموں کے صدر غلام حیدر شاہ تھے جب مسلم کانفرنس کا دوبارہ احیاءقائد اعظم محمد علی جناح کے حکم پر مسلم لیگ کو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس میں ضم کر دیا گیا، اس فیصلہ سے مسلم کانفرنس پہلے سے زیادہ فعال ہو گئی، آج ضد اور انا کی خاطر جن لوگوں نے آزاد کشمیر میں مسلم لیگ کا ونگ قائم کیا ہے انہیں قائد اعظم محمد علی جناح کے اس وقت کے فیصلہ کو پیش نظر رکھنا چاہیے تھا ہم نے تو قائد کے اقوال کو بھی بھلا دیا، اس وقت چودھری غلام عباس نے مسلم لیگ اور قائد عظم کے پیغام کو مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے کشمیر کی گلی اور بستی میں پہنچایا۔
شیخ عبداللہ نے اپنی کتاب آتش چنار میں اپنی غلطیوں کا اعتراف اپنی زندگی میں کر لیا تھا۔ قائد اعظم کا چوہدری غلام عباس پر بے پناہ اعتماد تھا۔ اس کا ذکر ممتاز بیورو کریٹ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامے میں بھی ذکر کیا ہے کہ جب چوہدری غلام عباس 1948ءکو قیدیوں کے بدلے میں رائے ملی ۔ آپ سیالکوٹ پھر قائد اعظم کو ملنے گورنر جنرل ہاﺅس کراچی آئے تو قائداعظم نے خود اپنے دفتر سے باہر آ کر آپ کا استقبال کیا۔ اور خوشی کا اظہار کیا۔ تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم نے جن شخصیات کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا ان میں چوہدری غلام عباس بھی شامل تھے۔ لیکن افسوس چند دن قبل لاہور میں آزادی انٹر چینج کے انڈر بائی پاس گیلری میں کارکنان تحریک پاکستان اور چند نامور لوگوں کی تصاویر معہ تفصیل لگی دیکھنے کا اتفاق ہوا لیکن ان میں قائد اعظم کے جانشین اور قابل اعتماد ساتھی کشمیر کی نمائندگی کرنے والے چوہدری غلام عباس کی تصویر نظر نہ آئی۔ کیا جان بوجھ کر ایسا کیا گیا ہے یا نادانی میں ہوا۔ خدارا میاں شہباز شریف اس کا ازالہ کریں۔ اس مرد قلندر کی تصویر بھی وہاں لگائی جائے۔ 18 دسمبر 1967ءکو آپ خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو فیض آباد اور راولپنڈی کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا کیونکہ یہ راستہ پاکستان کی طرف سے کشمیر کی طرف جاتا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024