جب قوموں کی زندگی میں جہدِ مسلسل کا عنصر ختم ہو جاتا ہے تو قوموں کی زندگی جہدِ مسلسل بن جاتی ہے۔ تب تعمیریت‘ مقصدیت اور نظریہ کے احیاء جیسے عوامل کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ تب کئی سوالات اُبھرتے ہیں۔ مسلم معاشرہ بحران کا شکار کیوں ہے؟ ان معاشروں میں انتشار اور عدم استحکام کیوں ہے۔ جمہوریت کی اقدار صحیح طریقے سے کیوں نہیں پنپ رہی ہیں۔ اس کا جواب کچھ اس طرح سے دیا جا سکتا ہے کہ جہاں تک اسلامی معاشرے کا تعلق ہے تو الجزائر سے لیکر انڈونیشیا تک ہم نے سب سے پہلے قومی مفاد کو قربان کیا اور ایسے دوستوں کا انتخاب کیا کہ جو ایک طرف تو ہمارے مخلص نہ تھے اور دوسری طرف ان دوست ممالک کے دشمنوں کو بھی اپنا دشمن بنا لیا۔ مسلمانانِ عالم کے آئے دن قتل اور کشمیر میں مظالم کی کسی مسلم ممالک نے دو ٹوک مذمت کرتے ہوئے بھارت کی مذمت نہ کی۔ مغرب اور افریقی ممالک آپس کی مخاصمت میں اتنا الجھ گئے کہ وہ اس دلدل سے نکلنے کی بجائے اس میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ ہم صرف اخوت کی لوریاں سنا سنا کر اور اسلامی اتحاد کا خواب دیکھ کر اپنے جذبات کو تھپکیاں دے رہے ہیں۔
بین الاقوامی سازشوں کے سامنے مؤثر خارجہ پالیسی کا کردار اس خندق کی طرح ہے کہ جسکے اردگرد حصار لگا دیا جائے۔ جب حملہ آور اس خندق کو عبور کرے تو عسکری قوت میدان میں اتر آئے‘ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم سے وہ حصار ٹوٹ گیا ہے جس سے ان طاقتوں کو مال‘ معاشی اور معاشرتی کمزوریوں سے آگاہی کا موقع مل گیا ہے جو مسلمانوں کے اندر موجود رہی ہیں۔ ایک حقیقت ہے کہ جب تک خارجہ پالیسی مضبوط رہتی ہے‘ بین الاقوامی تعلقات میں توازن رہتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ان اسلامی ریاستوں نے آپس کے اختلافات بھلا کر انکی جارحانہ کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے خود کو بے دست و پا بنا کر انکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بحران کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور افغانستان‘ عراق اور شام کے بعد یہ سلسلہ یمن تک جا پھیلا ہے۔ کہیں یہ اختلافات عقیدے کا لبادہ اوڑھے نظر آتے ہیں اور کہیں شیعہ سنی تفرقات کا لبادہ اوڑھے نظر آتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگیں عقیدے کی بجائے ملکی مفادات کے پیش نظر لڑی جاتی ہیں۔ ملکی تحفظ‘ سالمیت اور بقاء اس موقع پر لازمی حیثیت ہوتے ہیں‘ لیکن ہم اپنی طاقت آپس میں بدست و گریباں ہونے پر ضائع کر رہے ہیں جس کے نتائج ہمیں آگے چل کر بھگتنے ہونگے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب خارجہ پالیسی متوازن اور رہنما اصولوں سے منحرف ہو جائے تو امت مسلمہ کی تقسیم‘ انتشار‘ بیرونی قوتوں کی سازشیں اور فروعی اختلافات جیسے مسائل کے امکانات کو رد کرنا مشکل نظرآتا ہے۔ مسلم دنیا جس کی کم و بیش پچاس کے قریب ممالک پر حکمرانی ہے اور جسکے پاس دنیا کے بڑے ہتھیار اور پٹرول کی سہولت موجود ہے۔ آج بے بس نہتے اور لاچار کیوں ہیں۔ انکی دولت پر اغیار کیوں قابض ہیں۔ ان سے شخصی آزادی کیوں چھن گئی ہے۔ ان حکمرانوں کے فیصلے ملکی مفاد کے تابع ہونے کی بجائے ان بڑی طاقتوں کے تابع کیوں ہوتے ہیں۔ تیل کی دولت سے مالامال ممالک اگر ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کی طرف توجہ دیتے تو حالات یکسر مختلف ہوتے۔ مسلمان کو ابتدا سے علم اور قلم کی تعلیم دی گئی۔ غوروفکر کیساتھ ساتھ اپنے تحفظ اور بقاء کیلئے گھوڑے اور اسلحہ جنگ ہمیشہ تیار رکھنے کا حکم دیا گیا‘ لیکن افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ آج ہر ملک کے حکمران اپنے ذاتی مفادات کے ہاتھو مجبور اور بے بس نظر آتے ہیں۔ برس ہا برس سے ہمارے اندر سے قوت فیصلہ چھن گئی اور تذبذب‘ کشمکش اور سیاسی مفاد نے ڈیرے ڈال لئے۔ ہمارا سعودی عرب اور یمن کی کشمکش میں قوت فیصلہ کے فقدان نے ہمارے جمہوری نظام کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ فوری اور بروقت فیصلے قوموں کے اتفاق اور عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسکی ایک وجہ تو ذاتی مفادات ہیں اور دوسری وجہ وہ بحران ہیں جو ہم پر روزاول سے مسلط ہیں اور کسی بھی حکمران نے ان سے نبردآزما ہونے کی سعی نہیں کی ہے اور اب یہ صورتحال ہے کہ کمزور خارجہ پالیسی نے پاکستان کو تنہا کر دیا ہے۔ اگر ایران اور سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو ایران ہندوستان کا حلیف رہا ہے۔ سعودی عرب نے ہندوستان سے تعلقات برقرار رکھے۔ ہمیں بھی ترجیحات سے باہر نکل کر فیصلے کرنے ہونگے۔ عالم اسلام اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ امریکہ اور یورپ کے مفادات جوکہ تیل سے وابستہ ہیں لہٰذا انہوں نے نہایت ہوشیاری‘ ہنرمندی اور حکمت عملی سے فلسطینیوں اور عربوں کے درمیان اختلافات پیدا کر دیئے۔ فلسطینی عوام پر بربریت کا آغاز ہوا اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے‘ لیکن عرب حکمرانوں میں اتنی اخلاقی جرأت نہ تھی کہ وہ مذمت کے دو بول ادا کر سکتے۔ افغانستان‘ شام‘ عراق‘ یمن اور سعودی عرب کی کشمکش اور خاص طورپر امریکہ ایران معاہدے کے تحت ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ کشمکش خطے پر کس طرح اثرانداز ہو سکتی ہے اور مسلمانوں کو باہم تصادم سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ اگر پوری پوری ملت اسلامیہ نے اپنی سیاسی اور معاشی ترجیحات نہ بدلیں اوراپنے سیاسی‘ معاشی حالات کا جائزہ لیکر اپنے کردار کی راہیں متعین نہ کیں تو غربت‘ مایوسی‘ شکست خوردگی ان اسلامی ریاستوں کا مقدر ہو سکتی ہے۔ آزاد قومیں ماضی کی کوتاہیوں سے سبق حاصل کرکے مستقبل کیلئے راہیں متعین کرتی ہیں۔ ہم ان غلطیوں پر نظرثانی کرنے کیلئے بھی تیار ہیں جنہوں نے ہمیں انتشار‘ زوال اور مخاصمت کی طرف دھکیل دیا ہے اور ہم سے جہد مسلسل کی صلاحیت چھین کر ہم پر اس جبر مسلسل کو مسلط کر دیا ہے جس نے ہماری زندگیوں میں مایوسی‘ بے چینی اور بے حسی کو بھر دیا ہے جوکہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024