پاکستان کے ہر سرکاری شعبے میں ملازمین کو سو فیصد طبی سہولیات میسر ہیں حتیٰ کہ ان میں بیرون ملک علاج معالجے کی سہولیات اور فنڈز بھی شامل ہیں لیکن ایک محروم اور مرحوم طبقہ اساتذہ کرام کا ہے، جسے تنخواہ میں ’’میڈیکل الائونس‘‘ کے نام پر ایک شرمناک اور ناقابل بیان رقم دی جاتی ہے جس سے گھر کے افراد کیلئے محض پینا ڈول خریدی جا سکتی ہے۔ اسکے علاوہ کچھ نہیں اساتذہ کی تنخواہ ویسے ہی اس قدر کم ہیں کہ مہنگائی کے اس ہولناک دور میں پورا مہینہ تو دور، پندرہ دن بھی گزارا کرنا ممکن نہیں۔ ایک چھوٹی سی فیملی جس میں میاں بیوی اور دو بچے شامل ہوں، ماہانہ تنخواہ میں ان کی بنیادی ضروریات کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر اساتذہ کرام کو کسی دوسرے ادارے میں بھی کام کرنے کی قانونی اجازت نہیں۔ چند لوگ ہیں جو پرائیویٹ اکیڈمیز میں شام کو پڑھاتے ہیں، انکے حالات قدرے بہتر ہیں لیکن انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اساتذہ کی اکثریت رہائش، بچوں کی تعلیم اور میڈیکل سہولیات سے مکمل طور پر محروم ہے۔ ایک استاد ساری زندگی لوگوں کے بچوں کو تعلیم دیتا ہے۔ اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرتا ہے، اپنے بچوں کو بھوکا پیاسا اور لاعلاج اور بے گھر ہونے کے بدلے میں اسے ملتا کیا ہے؟ ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری دفتروں کے چکر، اسکے باوجود پھر بھی پنشن نہیں ملتی… اساتذہ کرام وہ بدنصیب لوگ ہیں جو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں اور ایسا صرف اور صرف پاکستان میں ہی ہے۔ ورنہ دیگر ممالک میں آپ دیکھ لیں، سب سے زیادہ خوشحال اور امیر اور باعزت طبقہ اساتذہ کرام کا ہے۔ علاوہ ازیں اساتذہ کی پروموشن کا نظام بھی اس قدر سست ہے غیرمرتب ہے کہ اٹھارہ اٹھارہ بیس بیس سال انکی پروموشن ہی نہیں ہوتی بلکہ بعض بدنصیب اساتذہ تو لیکچرار بھرتی ہوتے ہیں اور لیکچرار ہی ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں کچھ لیکچرارز کی پروموشن کے بارے میں میٹنگ ہوئی، تمام کیسز پروموٹ بھی ہو گئے لیکن آج چار ماہ گزرنے کے بعد بھی انکی پروموشن اور اپ گریڈیشن کا نوٹیفکیشن نہیں ہو سکا۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس ظلم و ستم پر مبنی نظام کو دیکھتے ہوئے ہر ٹیچر اپنے بچوں اور اپنے سٹوڈنٹس کو ایک ہی نصیحت کرتا ہے۔ بیٹا پاکستان میں عزت و آبرو اور خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہے تو اور کچھ بھی بن جانا، ٹیچر کبھی نہ بننا!موجودہ حکومت جہاں باقی تمام محکموں اور اداروں کی خوشحالی و بہبود کیلئے عملی اقدامات کر رہی ہے اسے اساتذہ کرام کی خوشحالی اور آبرو کی بحالی کیلئے بھی نہ صرف سوچنا چاہئے بلکہ عملاً اس پر پیشرفت بھی کرنی چاہئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف تعلیم کو عام اور سستا کرنے کی بات کرتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اساتذہ کرام کی بنیادی ضروریات کا بھی ادراک کریں اور اساتذہ کیلئے پورے پنجاب میں اساتذہ کالونیاں قائم کرنے کا اعلان کریں اور تمام اساتذہ کو ان کی سروس کے دوران ہی کم از کم پانچ پانچ مرلے کے سستے پلاٹ آسان قسطوں پر فراہم کریں۔ اسکے علاوہ اساتذہ کے بچوں کی مفت تعلیم اور مفت علاج معالجے کا اعلان بھی کریں۔ یہ حکومت کا اساتذہ پر کوئی احسان نہیں ہو گا بلکہ حکومت وقت کا فرض اولین ہے کہ وطن عزیز میں علم کی شمعیں روشن کرنیوالوں کے احسانات کا کچھ تو قرض ادا کیا جائے۔ جیسے پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کو تقریباً پندرہ ہزار ماہانہ رہائشی الائونس یا رہائش دی جاتی ہے۔ تمام سرکاری کالجز کے اساتذہ کیلئے مفت رہائش یا پندرہ ہزار ماہانہ رہائشی الائونس کا اعلان کرے۔ اسی طرح یونیورسٹی کے اساتذہ کو بالکل مفت طبی سہولیات حاصل ہیں چاہے وہ دس ہزار ماہانہ ہو یا اس میں کوئی غیر معمولی علاج، جیسے آپریشن وغیرہ شامل ہیں، اس طرح کی لامحدود طبی سہولیات تمام سرکاری کالجز کے اساتذہ کو فراہم کرنا حکومت وقت کا فرض ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے حکمران مغربی طرز زندگی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف نظر ڈالیں تو اس قدر انسانیت سوز سلوک سرکاری ملازمین خصوصاً اساتذہ کرام کے ساتھ کیا جا رہا ہے جس کی مغرب میں کوئی مثال نہیں ملتی… گویا ہمارے حکمران ’’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘ کے مترادف ہیں، جہاں اپنا ذاتی فائدہ ہو، وہاں مغرب کی تقلید، جہاں اساتذہ کا معاملہ آ جائے وہاں چنگیز خان اور فرعون… عالمی بنک کی حالیہ رپورٹ کیمطابق پاکستان معاشی ترقی میں بھوٹان اور مالدیپ سے بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ واہ … سبحان اللہ … کیا کارکردگی ہے! کیا گڈ گورننس ہے… جب تک ملک سے جہالت کے اندھیرے مکمل طور پر ختم نہیں کر دئیے جاتے، پاکستان کسی بھی میدان میں ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ بات مجھ سے زیادہ حکمران طبقہ جانتا ہے۔ ملک میں سڑکوں، پلوں انڈر پاسز کیساتھ ساتھ ، سکول کالجز اور یونیورسٹیاں اور ہسپتال بھی تعمیر کروائیں! جس لحاظ سے ہماری آبادی میںروز بروز اضافہ ہو رہا ہے، اس لحاظ سے تعلیمی اداروں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہسپتال کم پڑتے جا رہے ہیں اور جب تک آپ اساتذہ کو مالی طور پر خوشحال اور مطمئن نہیں کر دیتے، ملکی ترقی کا خواب دیکھنا بند کر دیجئے! بنگلہ دیش جیسے غریب ملک سے سبق سیکھیں۔ جس نے سقوط ڈھاکہ کے بعد فوراً اپنی تعلیمی شرح بڑھانے پر توجہ دی اور آج بنگلہ دیش میں خواندگی کی شرح اٹھانوے 98 فیصد ہے۔ وہاں کے اساتذہ خوشحال ہیں۔ لامحدود تعلیمی سہولیات طلباء کو میسر ہیں اور اساتذہ کو ہر طرح کی سہولیات حاصل ہیں۔ وزیراعظم میاں نوازشریف بھی اس مسئلے کی طرف توجہ دیں اور اساتذہ کرام کی مشکلات ختم کرنے کیلئے موثر اقدامات کریں۔ اختتام علامہ اقبالؒ کے اس شعر پر کرتا ہوں۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024