پوری پاکستانی قوم کیلئے یہ بات باعث مسرت و افتخار ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اماراتی وزیر خارجہ ڈاکٹر انور قرقاش کے دھمکی آمیز بیان پر جرات مندانہ ردعمل کا اظہار کرکے ملکی خود مختاری اور قومی غیرت و حمیت کی لاج رکھ لی ہے۔ بلاشبہ چودھری نثار علی خان نے اس حوالے سے جو بیان دیا ہے وہ پاکستانی عوام کے سلگتے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں ممد ثابت ہوا ہے۔ جہاں تک مشرقی وسطیٰ کے ممالک بالخصوص سعودی عرب اور اماراتی ممالک کا معاملہ ہے ان سے پاکستان سے دوستی محبت و اخوت اور بھائی چارے کے رشتے کا تعلق ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اسکی جڑیں ماضی کے کئی عشروں پر محیط ہیں قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی ہر حکومت نے ان تمام ممالک سے برادرانہ تعلقات اور دوستی کو مقدم جانا وہاں کی حکومتوں‘ فرمانرواؤں اور عوام کی دل کی گہرائیوں سے قدر کی اور انکی عزت و توقیر کا ہمیشہ خیال رکھا۔ ہر دفعہ اور ہر موقعہ پر عالمی پلیٹ فارموں پر بھی پاکستان کی طرف سے اپنے ان ہمدرد خیر خواہ اور دوست ممالک کے موقف کی ہمیشہ حمایت میں آواز بلند کی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض معاملات اور مسائل سے عہدہ برآء ہونے کیلئے پاکستان کو بھی ان دوست ممالک کی سیاسی اور اخلاقی مدد حاصل ہوتی رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی ملک ہوتے ہوئے بھی پاکستان کی حکومت اور عوام نے ان دوست ممالک کے الجھے ہوئے معاملات وسائل کو سلجھانے کی ہمیشہ حتی المقدور کوششیں کیں کرہ ارض کے ممالک ایک دوسرے سے گہرے برادرانہ دوستی کے تعلقات کی بنیاد پر باہمی اخلاقی اور سیاسی تعاون سے اپنے مسائل حل کرنے کی راہیں ہموار کرتے ہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یمن اور سعودی عرب دونوں برادر اسلامی ممالک ہیں‘ بوجوہ ان کی آپس میں ٹھنی ہوئی ہے۔ سعودی عرب کے فرمانروا نے پاکستان سے زمینی فوج‘ لڑاکا طیارے اور بحری جہاز یمن کیخلاف استعمال کرنے کیلئے مانگے‘ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اس امر کا انکشاف 6 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کیا تھا۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس میں اسی اہم ترین معاملہ پر کسی فیصلے پر پہنچنے کیلئے طلب کیا گیا تھا۔ کیونکہ پاکستان میں شہنشاہیت ہے نہ ہی کسی قسم کی آمریت کہ کسی فرد واحد کو ملک و قوم کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار ہو‘ پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جمہوری ملک ہے جس کا نظام جمہوریت ایک دستور کے تحت چل رہا ہے۔ ملک میں عوام کی منتخب جمہوری حکومت قائم ہے۔ منتخب وزیراعظم اور منتخب پارلیمنٹ ہے ملک کی پارلیمنٹ خود مختار اور بالادست جمہوری ادارہ ہے بلاخوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جمہوری ملکوں کی پارلیمنٹ ہی وہاں کے عوام کے جذبوں اور امنگوں کی حقیقی ترجمان ہوتی ہے چنانچہ سعودی عرب کے مطالبہ پر پاکستان کے عوام کا فیصلہ لینے کی غرض سے پارلیمنٹ کا جو مشترکہ اجلاس 6 اپریل کو بلایا گیا تھا۔ اس میں تفصیلی بحث و مباحثہ مسلسل پانچ یوم پر محیط رہا اور ملک کی نمائندہ پارلیمنٹ نے فیصلہ دیا کہ حکومت پاکستان امن کیلئے فعال سفارتی کردار ادا کرے‘ اقوام متحدہ اور او آئی سی کو متحرک کرکے فریقین مذاکرات سے اختلافات طے کریں۔ پاکستان غیر جانبدار رہ کر مصالحت کرائے۔مگر قابل افسوس بات یہ ہوئی کہ پاکستان کی مشترکہ پارلیمنٹ کے اجلاس کی متفقہ قرارداد کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ متحدہ امارات کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور قرقاش نے اپنے بیان میں یہ کہہ کر پاکستان کے عوام کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا کہ پاکستان کو یمن بحران پر اپنے موقف کی بھاری قیمت چکانا ہو گی۔ اس سے قبل کہ اماراتی وزیر کے بیان پر پاکستان کے تلملاتے ہوئے سواد اعظم کی طرف سے کسی شدید ردعمل کا اظہار ہوتا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ چودھری نثار علی خان کی رگ حمیت پھڑک اٹھی اور انہوں اپنے فوری اور بروقت بیان سے عوام کے بھڑکتے جذبات کو ٹھنڈا کیا۔ ورنہ اماراتی وزیر کی اس دھمکی پر پاکستان کے عوام اپنے شدید ردعمل کا عملی مظاہرہ کرنے سے روکے نہیں جا سکتے تھے۔
ارباب حکومت سمیت‘ جمہوریت اور جمہوری انداز سے منتخب ہونے والی جمہوری پارلیمنٹ پر غیر متزلزل یقین رکھنے والے پاکستان کے عوام کے لئے بھی یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ آخر پاکستان ایسے جمہوری ملک میں سب سے بالادست‘ خود مختار جمہوری ادارے کے فیصلوں کو کھلے بندوں ہدف تنقید کیوں بنایا جا رہا ہے۔ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں‘ انہیں ایساکرنے کی اجازت کس نے دی اور کس کے اشارے پر دے رکھی ہے۔ جمہوری ممالک میں ہر شخص کو اپنی رائے کا اظہار کرنے ک حق ہے۔ مگر جو فیصلہ قوم کی منتخب پارلیمنٹ کر دے‘ وہ ملکی قانون کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس کیخلاف سرعام اظہار خیال کرکے اسے نشانہ تضحیک بنانا یا اس فیصلے پر عدم اعتماد کی فضا پیدا کرنا منتخب پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کے خلاف سرگرم عمل ہونے کے مترادف ہے۔ جسے جمہوریت پسندی قرار نہیں دیا جا سکتا۔خطے کے دو مسلمان ممالک سعودی عرب اور یمن کے بحران کے حوالے سے ملکی پارلیمنٹ نے قرارداد کی شکل میں جو فیصلہ کیا ہے وہ ہر لحاظ سے دانش مندانہ اور خطے میں فرقہ واریت کے خوفناک شعلوں پر قابو پانے کی قابل قدر کوشش کے مترادف ہے۔ بدقسمتی سے ملک کے اندر بعض عناصر کی طرف سے بھی عوام کی منتخب پارلیمنٹ کے فیصلے کی مخالفت کی جا رہی ہے ایسے عناصر یقیناً جمہوری اقدار اور جمہوریت کی نفی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ فرض مسند اقتدار پر براجمان طبقے کا ہے کہ وہ ملک میں عوام سے پارلیمنٹ کے فیصلوں کا احترام کرانے کے موثر اقدامات کرے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں سماجی‘ فلاحی اور سیاسی میدانوں میں سرگرم عمل تمام عناصر اور تنظیموں سے بلا تخصیص ملکی دستور اور اسکی روشنی میں جمہوریت‘ جمہوری اقدار اور انتخابی عمل کو جزو ایمان جاننے کی حکومتی سطح پر تحریری طور پر یقین دہانی حاصل کی جائے۔ تبھی ملکی فضا میں سب سے بالادست جمہوری ادارے پارلیمنٹ کے فیصلوں کو ملک میں رگیدنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اسی صورت پاکستان میں جمہوری اقدار کے فروغ اور جمہوریت کی بہتر طور پر نشوونما کا راستہ بھی ہموار ہو گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024