عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کا مقصد مدارس ختم کرکے ایسے سکول قائم کرنا ہیں جو سیکولر مضامین کی تعلیم دیں۔ اس کے علاوہ کنٹینر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم حقیقی جمہوریت اور انتخابی اصلاحات کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ جدوجہد کو فرانسیسی اور روسی انقلاب کی بنیاد پر آگے بڑھائیں گے۔
ایک عالم دین کے یہ بیان پڑھ کے مجھے تعجب ہوا کہ وہ کس طرف جا رہے ہیں کیونکہ جب انہوں نے ادارہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھی تو دعا کی مولا! تیرے دین اور مصطفوی مشن کیلئے میں نے یہ ادارہ قائم کیا ہے۔
ان دنوں ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا تھا کہ میں نے آغاز ہی میں ایک چیز طے کر لی کہ اللہ کی دی ہوئی نعمت‘ صلاحیت اور دین کی خدمت کیلئے عطا ہونے والی عزت کبھی نہیں بیچوں گا اور ان کا استعمال صرف اللہ کی رضا اور اس کے رسول کی خوشنودی کیلئے کروں گا۔
یہ باتیں ڈاکٹر طاہرالقادری نے 2004ءکو ایک انٹرویو میں کی تھیں۔ دس سال بعد وہ مدارس کو ختم کرکے سیکولر تعلیم کی بات کر رہے ہیں اور اپنی جدوجہد کو فرانسیسی اور روسی انقلاب کی بنیاد پر آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
قارئین کو علم ہوگا کہ اٹھارویں صدی میں فرانس دنیا کا سب سے مہذب و متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا جہاں انسانی ذہنوں نے انتہائی جرات¿ کے ساتھ ہر مسئلہ پر تنقید و رائے زنی شروع کر دی۔ تہذیب اور اخلاقیات‘ تعلیم‘ حقوق انسانی‘ سیاسیات غرض کہ ہر موضوع پر اس کے مفکروں اور ادیبوں نے کسی لاگ لپٹ کے بغیر اپنی اپنی رائے کا اظہار کرنا شروع کیا۔ جب انقلاب عمل میں آیا تو اس کے سماجی‘ اخلاقی اور انسانی پہلو نظر سے اوجھل ہو گئے اور نگاہیں سیاسی کارفرماﺅں پر مرکوز ہو گئیں۔ خیالات و جذبات کے سامنے بادشاہ‘ ملکہ‘ شاہی خاندان‘ امراءاور وہ سب اشخاص اور ادارے جو سیاسی زندگی سے متعلق تھے یا اس کے آئینہ دار تھے‘ کچل دیئے گئے۔ انقلاب فرانس کے بارے میں عام طورپر خیال کیا جاتا ہے کہ انقلاب فرانس کا باعث اقتصادی بدحالی تھی مگر کارلائل اور دوسرے مو¿رخین اس نظریئے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ فرانس کے باشندوں کی مالی حالت دوسرے ممالک کے باشندوں سے کسی طرح بُری نہیں تھی۔ اسی طرح یہ نظریہ بھی قطعاً غلط ہے کہ انقلاب اس لئے برپا ہوا کہ بادشاہ فرانس لوئی شانز دہم اپنے ملک اور رعایا کا بہی خواہ نہ تھا بلکہ یہ حقیقت ہے کہ وہ لوئی پانز دہم سے کئی درجہ بہتر حکمران تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ جب تخت نشین ہوا تو لوگوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ جب اس کے خلاف بغاوت ہوئی تو سیاسی انقلاب کے ساتھ اقتصادی‘ سماجی اور مذہبی انقلاب بھی آگیا۔ صدیوں کی اقدار دو سالوں کے اندر ملیامیٹ ہو گئیں۔ لوئی کے مشیروں بالخصوص بھائیوں اور ملکہ نے اسے پیرس سے بھاگنے کی ترغیب دی۔ بادشاہ اور ملکہ پکڑ لئے گئے۔ 1792ءکو عوام نے شاہی محل پر حملہ کردیا۔ مشتعل انقلاب پسندوں نے بادشاہ اور ملکہ کی گرفتاری کا پرزور مطالبہ کیا۔ اس کے بادشاہ اور ملکہ کو قید کر لیا گیا۔ 21 جنوری 1793ءکو شاہ فرانس کو سزائے موت دیدی گئی۔ 16 اکتوبر 1793ءکو ملکہ فرانس کو بھی عوامی عدالتی کارروائی کے بعد موت کی سزا دیدی گئی۔ 9 نومبر 1799ءکو نپولین برسراقتدار آیا۔
جہاں تک انقلابِ روس کا تعلق ہے تو یہ انقلاب زارِ روس کی حکومت کو زمین بوس کرنے پر منتج ہوا۔ زارِ روس کے زوال کے بعد لینن روس پہنچا اور اس نے اس حکومت کا سنگ بنیاد رکھا جس نے بالآخر اشتمالی نظریات کو بہت حد تک عملی جامہ پہنایا۔ جس زمانہ میں اشتمالی افکار کا دور دورہ فرانس‘ جرمنی‘ انگلستان وغیرہ میں تھا‘ اس وقت کارل مارکس نے یہ کہا تھا کہ سرمایہ داری نظام کے خلاف انقلاب روس میں ہوگا۔ اس کے یہ الفاظ درست ثابت ہوئے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کی نئی درفنطنیوں کا فیصلہ قارئین اور ڈاکٹر صاحب کے متاثرین پر چھوڑتا ہوں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024