آج کے کالم میں دو باتیں ہونگی ایک تو جائز اولاد اور ناجائز اولاد کی طرح جائز حکمرانی اور ناجائز حکمرانی کیا ہوتی ہے اور دوسرا ذکر شیکسپیئر کے ڈرامے کے ایک کردار کا ہو گا۔ ان دونوں باتوں کا بظاہر تعلق نظر نہیں آتا مگر اصل میں گہرا تعلق نکل آئے گا۔ جائز اور ناجائز حکمرانی کی مثال تازہ ترین صورتحال میں زمبابوے کی ہے۔ جہاں فوج نے صدر موگابے کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور صدر موگابے کو نظر بند کر دیا۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اب ذرا صدر موگابے کا حال سنئے کہ وہ پچھلے 37 برس سے زمبابوے پر حکومت کر رہے تھے اور اب اپنی اہلیہ کو حکمران بنانے کا پروگرام بنا رہے تھے کہ فوج نے تختہ الٹ دیا۔ اس میں دو باتیں ہیں کہ کیا کوئی ملک کسی کے باپ دادا کی میراث ہوتا ہے کہ حکمران تبدیل نہیں ہو سکتے؟ اور یا پھر اگر تبدیلی کی گنجائش ہو تو وہ صرف حکمران کے خاندان کے افراد تک ہی محدود ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں معطل وزیراعظم نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بن کر اس ملک و قوم کے لئے خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ اب انہیں ہمیں سلیوٹ کر کے تھوڑا وقت اپنے خاندان اور نجی زندگی کے ساتھ گزارنے کا موقع ملنا چاہئے۔ اب جو بات ہوئی تھی کہ حکمرانوں کی ناجائز حکمرانی اور غلط رویوں کی وجہ سے ملک و قوم کو بہت نقصان ہوتا ہے تو آج کل مولانا خادم رضوی پنڈی اسلام آباد کے اہم مقام فیض آباد میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری کا دھرنا کم از کم ایک مخصوص مقام پر تھا جس کی وجہ سے نظام زندگی چلتا رہتا تھا مگر مولانا خادم رضوی نے ختم نبوت کے اہم نکتے کو مد نظر رکھ کر احتجاج شروع کیا جس پر حکومت کو فوری مذاکرات کرنے چاہئے تھے اور عوام کی مشکلات سے حل کے بارے میں سوچنا چاہئے تھا۔ مگر بد قسمتی سے وہ پانامہ کے بعد حدیبیہ کا سامنا کرنے والے ہیں اور جو ان کی اس وقت حکومت موجود ہے وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وہ نواز شریف فیملی کی سیوا میں لگی ہوئی ہے۔ لہٰذا ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دے رہی ہے اور یہ نہایت خطرناک صورتحال بھی ہے۔ کل یہی تربت اور کوئٹہ میں فائرنگ کے واقعات کا بھی اندازہ کرنا چاہئے کہ فائرنگ میں ایس پی، ان کی اہلیہ، بیٹا اور پوتا ہلاک کر دیئے گئے اور ذمہ داری کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کر لی ہے۔ ایسے میں قومی سلامتی کا اجلاس بھی ہوا لیکن ملک دشمن عناصر کی سرگرمیاں ایٹمی ملک میں حکومت نہ ہونے کے سبب خطرناک صورتحال اختیار کر سکتی ہیں اور ملک کی معیشت بھی لڑکھڑا رہی ہے اس لئے نہ حکمران پانامہ میں ملوث ہوتے اور نہ حدیبیہ کے کرپشن کے سلسلے سامنے آتے تو نہ ملک و قوم کو آج یہ دن دیکھنا پڑتا۔ ظاہر ہے کہ حکمرانی کا یہ سلسلہ جب ورثے کی طرح اولاد اور پھر ان کی اولادوں تک سونپنے کا سوچا جائے گا تو پاکستانی عوام زمبابوے کی عوام کی طرح 37 برس تک خاموش نہیں رہ سکتی۔ اتنے طویل اقتدارکے نقصانات میں ہی اقربا پروری اور کرپشن شامل ہو جایا کرتی ہے۔ اب پنڈی اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے مولانا حضرات کا مسئلہ حل کرنا ضروری ہے کیونکہ ظاہر ہے وہ اپنے سیاسی مقاصد پر ہی کام کر رہے ہیں اور یہ جدوجہد جلسوں میں جا کر عوام کو متوجہ کرنے کی صورت میں ہونا چاہئے تھی۔ مگر بد قسمتی سے انہوں نے مولانا طاہر القادری کا نمبر کاٹ دیا ہے اور اس جگہ پر دھرنا لگایا ہے جہاں سے کشمیر اور سرحد اور چار سمتوں کی ٹریفک کا آنا جانا ہوتا ہے۔ اس طرح انہوں نے عوام کی زندگی مفلوج کی ہوئی ہے۔ یہاں سوال مذہب میں لوگوں کی فلاح کا بھی ہے۔ حضورؐ کی سیرت پاک میں لوگوں کو تکلیف دینا شامل نہیں تھا اگر کسی محاصرے کی بات کی جاتی ہے تو وہ جنوں کے زمانوں میں ہوا کرتا تھا اور دشمن کے لئے ہوا کرتا تھا یہاں تو دشمنی ملک کے ساتھ ہو رہی ہے کیونکہ چین کے ساتھ ہمارا سی پیک کا منصوبہ خطرے میں پڑ جائے گا۔ پہلے دنوں جو چین کا رخ بدلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا تو ان کی شرط یہ ہے کہ ملک سے شدت پسندی کا خاتمہ کیا جائے لہٰذا اسلام کے مثبت پہلو اجاگر کر کے مطالبات کے لئے درست راستہ اختیار کرنا چاہئے۔لہٰذا اسلام کے فلاحی پہلو کو سامنے رکھ کر عوام کی مشکلات کا ادراک کرنا ضروری ہے۔ اب بات کرتے ہیں شیکسپئر کے ڈرامہ کے ایک کردار پرنس ہیملٹ کی ہے کہ جس کے والد اور جائز حکمران کو کان میں زہر ڈال کر مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کان میں زہر ڈالنے کی صورت میں زہر آہستہ آہستہ اثر کرتا ہے۔ پرنس ہیملٹ نے تریاق تو کر لیا مگر خود کو زہر کے اثر میں ہی دکھایا اور سازش اور دشمن کے بے نقاب ہونے تک ’’خود ساختہ دیوانگی‘‘ اختیار کر لی۔ لیکن اس زمانے کا بادشاہ بڑا گھاک شخص تھا اس نے کہا اگر یہ پاگل ہے تو در پردہ کوئی سکیم ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک خود ساختہ دیوانگی اختیار نہیں کی جاتی مگر خود ساختہ جلا وطنی کے بعد خود ساختہ بیماری اختیار کر لی جاتی ہے جیسا کہ اسحاق ڈار نے کی ہوئی ہے۔ کاش نواز شریف اس ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہو کر حکمرانی کرتے اور قائداعظم اور اقبال کے خیالات اور زندگی گزارنے کے طریقے اپناتے تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024