نئی سیاسی صف بندیاں شروع ہوچکی ہیں۔ کس کے حکم پر ہورہی ہے کون ان کا ماسٹر ہے۔ اس کا کیا مقصد ہے۔ یہ ہمارے سیاست دان شاید جانتے ہوں مگر بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ جہاں چڑھتے سورج کے بچاری نامی گرامی سیاست دان گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہے ہیں۔ وہاں پرویز رشید کی طرح کچھ ایسے بھی ہیں جو ہر طرح کے حالات میں اپنی جگہ ڈٹے رہیں گے۔ بہرحال اگلے الیکشن کے لیے ملک کی سبھی سیاسی پارٹیاں آنے والے سیاسی معرکے کی تیاری کر رہی ہیں۔ اگرچہ آج کی پیپلز پارٹی کا ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کے وژن سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم انھی کے نام کو استعمال کر کے لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کا کام جاری ہے۔ کبھی بھٹو نے غریب آدمی کو اپنی سیاست کا محور بنایا تھا۔ لیکن آج روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پارٹی اپنا ایجنڈا بھول چکی ہے حتی کہ پیپلز پارٹی کے نظریات سے محبت رکھنے والے قائدین ایک ایک کر کے خاموش کرادئیے گئے ہیں اور زرداری صاحب سمیت ایسے لوگ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں جنھیں پی پی کے نظریات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ بھٹو کے بعد بے نظیر سے لوگوں نے محبت کی انکی موت نے پیپلز پارٹی کو ایک موقع دیا جسے مثبت طور استعمال کرنے کی بجائے انھوں نے لُوٹ مار میں گزار دیا لیکن اب وہ محبت زرداری صاحب کے حصّے آنے والی نہیں۔ پچھلے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ساتھ عوام نے جو سلوک کیا۔ وہ سب نے دیکھ لیا۔ حالت یہ ہے کہ آج پیپلز پارٹی کو باقی ملک کی طرح سندھ میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اپنی واضح ناکامی دیکھ کے آصف علی زرداری نے نواز شریف پر عدالتی شکنجہ کَسے ہونے پر ان سے دوری اختیار کی ہوئی ہے۔ بات یہ نہیں کہ محترم زرداری صاحب میاں نوازشریف سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ وہ نواز شریف جیسے شخص کا ساتھ نہیں دینا چاہتے حالانکہ انہیں اپنے کارناموں کا بھی ادراک ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ اس وقت میاں صاحب کی حمایت کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کیخلاف کیسسز تیار ہونا شروع ہو جائیں گے۔ نہ صرف کیس تیار ہونگے بلکہ روز کی بنیاد پر شنوائی بھی ہو گی۔ آج کل ہماری معزز عدالتیں جس کیس کو اہم سمجھتی ہیں، ترجیحی بنیادوں پر ان کیسوں کی سماعت شروع کر دیتی ہیں۔ میاں نوازشریف کی یہ بات تو درست ہے کہ کیا وجہ ہے ہمارے کیسسز اور عمران خان پر لگے ایک سے الزامات کی تفتیش اور سماعت مختلف انداز میں ہورہی ہے۔ خان صاحب کے کیسسز میں لگتا ہے عدالت کو کوئی جلدی نہیں ہے جبکہ شریف فیملی کے سبھی کیس ایک بعد ایک سُنے جارہے ہیں۔ ملک کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں سبھی جماعتیں شطرنج کا کھیل شروع کر چکی ہیں۔ ہر کوئی اگلے الیکشن کو دیکھ کے اپنی صف بندی کر رہا ہے۔ بہت سے مفاد پرست سیاست دان ہوا کا رخ دیکھ کے رات کے اندھیروں میں ملاقتوں کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں۔ کوئی جماعت کسی دوسری جماعت سے اتحاد کا پلان بنا رہی ہے۔ تو بہت سی چھوٹی پارٹیوں کو ضم کرکے کسی ایک ہاتھ مضبوط کیے جارہے ہیں۔پاکستانی سیاست کے اہم کردار مولانا صاحب ایک بار متحدہ مجلس عمل کو فعال کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ دینی جماعتیں دینی معالات میں تو ایک صف میں اکٹھی نہیں ہو پاتی ہیں۔ مگر سیاسی عمل میں کسی کے کہنے پر کسی کی حمایت کردیتی ہیں۔طاقت ور اداروں اور عمران خان کیلئے سینٹ انتخابات بہت زیادہ اہمیت اختیار کرچکے ہیں اس لیے اب ا ن کی طرف سے قبل از وقت انتخابات کی مانگ زور و شور سے ہورہی ہے۔ اگر موجودہ حکومت اپنی ٹرم پوری کرلیتی ہے۔ اور نون لیگ کے جاری ترقیاتی کام مکمل ہوگئے۔ تو نون لیگ کو اگلے انتخابات میں پہلے سے بھی زیادہ ووٹ ملیں گے۔ اگر میاں نواز شریف بھی حالات کو دیکھتے ہوئے مؤثر حکمت عملی اپنائیں تو انکی جماعت کے راستے میں آنیوالی بہت سے مشکلات ختم نہ ہوں تو کم ضرور ہوسکتی ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے انتخابات میں دینی جماعتیں بہت اہم کردار ادا کرتی نظر آرہی ہیں جبکہ پنجاب میں میاں شہباز شریف نے اپنی کارکردگی سے واضع اکثریت حاصل کر لینی ہے۔ پنجاب کی ترقی کی تعریف کرنے کی بجائے شہباز شریف کو بلا وجہ عدالتی کاروائیوں میں الجھانے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ آنیوالے انتخابات میں کمزور حکومت سامنے لانے کیلئے نون لیگ کی لیڈر شپ کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ عمران خان کے ہاتھوں سے خیبر پختون خواہ کی حکومت بھی نکل جائیگی کیونکہ پرویز خٹک نے عوامی خدمت کے بجائے عمران خان کی جی حضوری میں زیادہ وقت صرف کردیا ہے۔ نون لیگ کے خلاف جتنا مرضی گھیرا تنگ کیا جائے۔ اگلے الیکشن میں نون لیگ کے بغیر مرکز میں کوئی دوسرا بھی حکومت نہیں بنا سکے گا۔ کراچی میں چلے کارتوسوں کو پھر سے فعال کرنے کی ڈھونگی کوشش کی گئی ہے اس لیے جلد بازی میں کی گی یہ پلاننگ جلد ہی ختم ہو گئی بلکہ ایک دوسرے کیخلاف الزامات پہلے سے بھی سخت لگنے لگے۔ میاں نواز شریف نے سندھ میں اپنی جماعت کو مضبوط کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی اس لیے اس بار بھی نون لیگ کو سندھ سے کوئی کامیابی ملنے کی امکانات بہت کم ہیں۔ لیکن یہ امید ہے سندھ میں پیپلز پارٹی اور مہاجروں کے نام پر ووٹ لینے کا سلسلہ ختم نہیں تو کم ضرور ہو جائے گا۔ امید ہے اس بار سندھ میں عوام ووٹ کا بنا خوف حق ادا کریں۔ سیاسی بساط جم چکی ہے۔ بہت سے مہرے سامنے آرہے ہیں دیکھیں وقت کیا کروٹ لیتا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024