چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے اتوار والے دن بھی عدالت کھول کر ثابت کیا ہے کہ یہاں کام کرنے کی کتنی ضرورت ہے۔ وہ لاء کالج کے زمانے سے ہی کام، کام اور کام پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے قانون کا امتحان پاس کیا تو فی الفور کام میں جُت گئے اور آج پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس ہیں لیکن یہ بھی ان کے علم میں ہے کہ کام کرنے کے لیے ہفتے کے چھ دن اور دن کے 8 گھنٹے بھی کافی ہوتے ہیں بشرطیکہ ان اوقات میں واقعی کام کیا جائے۔ دراصل ہوا یوں ہے کہ حکمرانوں نے اپنی ترجیحات میں اپنی مرضی سے اور اپنے مفاد کے مطابق تبدیلی کی ہے لہٰذا ان ترجیحات میں دولت، شہرت اور نہ جانے کیا کیا کچھ شامل ہے لیکن کام نہیں!! اور بغیر کام کے ہوتا نہیں ہے مقام کوئی… مگر ان کی دیکھا دیکھی معاشرے نے بھی اسی چلن کو اپنا لیا۔ سرکاری ادارے اپنے کام کے علاوہ سب کچھ حکمرانوں کے اشاروں پر کرنے اور ان کو خوش کرنے میں لگ گئے اور یہ سوچنے لگے کہ جب بغیر کام کے حکمران امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں تو انہیں جان کھپانے کی کیا ضرورت ہے۔ باقی رہا نظام تو یہ نظام انگریز بہادر نے تو اپنے غلام قابو کرنے کے لیے وضع کیا تھا مگر وہ چونکہ ہوشیار حکمران تھا اس نے اس میں کچھ فیصد پبلک ریلیف بھی رکھا تھا تاکہ اسے اس کی آڑ میں اپنا کام کرنے اور سونے کی چڑیا کی تمام پیداوار اپنے وطن مالوف منتقل کرنے میں آسانی رہے۔ آزادی کے بعد اگر انگریز کے کتے نہلانے والے برسرارقتدار آ کر اسمبلیوں پر قابض نہ ہوتے اور گورے کی جگہ کالا حاکم اپنی حاکمیت کو اسی نظام کی مدد سے چلانے کی بجائے یہاں لوگوں کی زندگیاں آسان کرنے کا کوئی نظام وضع کر لیتا تو شاید اس کی ضرورت پیش نہ آتی جیسا کہ پڑھے لکھے مہذب ملکوں میں ہے کہ ہر کسی کو سرکار کی طرف سے سلامتی، صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولت میسر ہے اور سبھی اپنا اپنا کام کرتے ہیں بلکہ ہفتے میں دو چھٹیاں بھی انجوائے کرتے ہیں… مگر باقی پانچ دن ان کے نزدیک کام کا مطلب کام ہے اور وہ دفتر میں اور اپنی جائے کار پر نہ تو اخبار پڑھتے ہیں نہ بار بار چائے پیتے ہیں اور نہ سرکاری ٹیلی فون کو اپنے ذاتی دوستوں سے گپ شپ کے لئے استعمال کرتے ہیں بلکہ وہاں تو موبائل پر بھی دورانِ کار بات کرنے کا رواج نہیں۔ زیادہ اشد ضرورت کی صورت میں پیغام رسانی سے ہی کام چلایا جاتا ہے۔
مگر ہمارے ہاں آوے کا آوہ ہی بگڑ چکا ہے۔ موبائل فون کو ہم نے ترقی کی علامت سمجھ لیا ہے اور موبائل کمپنیوں کو لوگوں کو لوٹنے کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔ وہ نت نئے پیکیج متعارف کرا کے لوگوں کو ’’آہرے‘‘ لگانے میں ماہر ہو چکی ہیں۔ ایک ہی گھر میں اگر 4افراد ہیں تو چاروں باہمی محبت اور یگانگت کی باتیں کرنے کی بجائے اپنے اپنے موبائل فون پر اپنی پسند کی ایکٹیوٹی کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور چاروں آپس میں بے نیازی کی اعلیٰ سے اعلیٰ منزل حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے خاندانی اور سماجی نظام بھی بکھر کر رہ گیا ہے۔ دوسری عظیم حرکت جو ہمارے ’’اپنوں‘‘ نے کی ہے وہ یہ کہ موجودہ نظام میں موجودہ کچھ فیصد ’’پبلک ریلیف‘‘ ختم کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نظام کا عام آدمی سے اب کوئی تعلق واسطہ ہی باقی نہیں رہا۔ موجودہ نظام اپنے کسٹوڈین حکمرانوں کے مفادات کے تحفظ کا نظام بن کر رہ گیا ہے یعنی اپنی ہیت میں مکمل طور پر فلاپ ہو چکا ہے جس کی واضح شکل یہ ہے کہ ریاست لوگوں کی جیبیں کاٹ کر اپنا دھندہ چلانے پر مجبور ہو چکی ہے۔ آئے دن بجلی، پانی، گیس اور مختلف النوع ٹیکسوں کی شکل میں واجبات جمع کئے جاتے ہیں اور پھر قرض دہندگان عالمی اداروں کی ایڈوائس پر بھی یہی کام کیا جا رہا ہے جس کے بدلے میں عوام کو جان، صحت، تعلیم اور روزگار کسی بھی حقوق کی کوئی گارنٹی دستیاب نہیں۔ ان حالات میں لوگ وہی کرتے ہیں جو وہ کر سکتے ہیں۔ یعنی توڑ پھوڑ، تشدد، غنڈہ گردی اور ہر وہ حرکت جس سے ان کی مجروح انا کو تسکین ملے۔
گذشتہ چند روز سے ’’زینب کیس‘‘ کا کافی زور ہے۔ تمام حساس لوگ اس حرکت سے پریشان ہیں اور ہر فرد انصاف کا طلبگار ہے جو کہ ہر انسان کا حق ہے مگر اس کے حصول کے لیے بھی لوگوں کو سڑکوں پر آ کر توڑ پھوڑ، گھیرائو جلائو اور مارکٹائی پر مجبور ہو نا پڑا جس کے مناظر ہمارے میڈیا پر ’’مفت‘‘دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے الیکٹرانک میڈیا خاص طور پر بہت فعال ہے اور چونکہ ابھی فی الحال خوداحتسابی کسی شکل کے بغیر ہی آگے بڑھ رہا ہے لہٰذا اس کی طرف سے اس احساس ذمہ داری کے مظاہرے کی اشد ضرورت ہے جو ایک پڑھی لکھی اور مہذب قوم کے لیے درکار ہے۔ معاملہ 4 افراد کے قتل کا ہو یا زینب کے ساتھ درندگی کا، وجوہات تلاش کرنے کا عمل بہت اہم ہے اور یہ کوئی ایک دن کا کام نہیں ویسے بھی جو کام ستر سال سے جاری ہے اسے ایک آدھ دن میں تبدیل بھی نہیں کیا جا سکتا مگر اس کی شروعات ضروری ہیں جو ابھی تک نظر نہیں آ رہی ہیں لہٰذا سرکار نہ سہی پرائیویٹ سطح پر ہی لوگوں کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے آنا چاہئے اور اس میں ریاست کے سبھی ستون شامل ہو کر مسائل کا ازسرنو جائزہ لیں اور اس حد تک پہنچی ہوئی بے حالی کی وجوہات کا تعین کرکے لوگوں کو اعتماد میں لیں اور پھر ان کو بذریعہ پبلک ڈبیٹ زیر بحث لا کر اس کا کوئی دیر پا جامع حل تلاش کرکے عمل پیرا ہوں تاکہ روز روز کی مصیبت سے لوگوں کو نجات ملے۔ ہمارے لوگوں کبھی حق کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ پرامن رہنے کی کوشش کرنی ہو گی تاکہ سارے ملک و معاشرے میں امن و امان کے ساتھ حقوق و فرائض کا ایک مکمل چارٹر مرتب کیا جا سکے۔ کہنے کو یہ سب باتیں خیالی لگتی ہیں مگر کاش ہم نے ان کو روز اول سے خیالی حیثیت نہ دی ہوتی تو آج یہ حالات نہ دیکھنے کو ملتے۔ نہ کوئی ’’زینب‘‘ برباد ہوتی نہ سڑکوں پر توڑ پھوڑ ہوتی اور نہ گھیرائو جلائو کے مناظر دیکھنے کو ملتے… مگر کیا یہ فرض کر لیا جائے کہ کسی بھی مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ یہ فرض کرنا بھی اپنے آپ کے ساتھ زیادتی ہے اور ظلم و زیادتی کے دور کو بالآخر ختم ہونا ہے کہ پُلوں کے نیچے سے پہلے ہی کافی پانی ہر سال گزر کر بحرئہ عرب میںشامل ہو رہا ہے۔
قوم وہ دن جلد دیکھنا چاہتی ہے جب اتوار کے دن دفتر نہ کھولنے پڑیں اور ہر بندہ اپنے کام سے آگاہ ہو اور وہی کرے اور دوسرے کو اس کاکام کرنے دے۔