پاکستانی دنیاکے کسی ملک میںبھی رہ رہے ہوں پاکستان کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ دنیا کے جمہوری ممالک نے تو انکی تربیت ایسی کی ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی کے علاوہ کچھ خواہش نہیں کرتے جبکہ گلف ممالک میں ہونے والی ترقی اور سخت قوانین نے بھی پاکستانیوں کو اپنے ملک میں ایسی ہی اچھی گورننس کی تمنا ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرنے والے روزگار کے فکر سے ہی نہیں نکلتے لیکن اچھی ملازمتیں اور اپنا کاروبار کرنے والے فارغ اوقات میں پاکستان کی سیاست پر ضرور بات کرتے ہیں۔ میںنے دیکھا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے اتنی تشویش کا اظہار نہیں کرتے جتنی اوورسیز پاکستانی کرتے ہیں۔
کچھ دن سپین کے شہر بارسلونا میں گزارنے کا موقع ملا۔ یہ شہر ترقی کر رہا ہے۔ 60 ہزار سے زائد پاکستانی رہتے ہیں۔ بڑے بڑے کاروباری ہیں تو مزدوری کرنے والے پاکستانی بھی ہیں۔ دوسرے ملکوں کی طرح بار سلونا میں پاکستان کی سیاسی پارٹیاں بھی موجود ہیں۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، منہاج القرآن، مسلم لیگ (ق) اور دوسری چھوٹی پارٹیاں بھی اپنا وجود رکھتی ہیں۔ پاکستانی اس حد تک آگے جا رہے ہیں کہ سپین میں بھی پاکستانیوں نے الیکشن میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔ سپین کی سیاسی پارٹیاں پاکستانیوں کو پارٹی ٹکٹ دے رہی ہیں۔ سپین ایک جمہوری ملک ہے جہاں برائے نام بادشاہت بھی قائم ہے لیکن انکے جمہوری سسٹم کو کوئی خطرہ نہیں۔ جمہوریت کے ثمرات سے نہ صرف انکے شہری فائدہ اٹھا رہے ہیں بلکہ پاکستانی بھی ان سے سیکھ رہے ہیں۔ سپین کے قوانین بڑے ہیں۔ صرف گاڑی کی اگلی سیٹوں پر بیلٹ لگانے کی شرط نہیں بلکہ پچھلے سیٹوں پر بھی لازماً بیلٹ لگانی پڑتی ہے۔ پولیس ہر وقت چوکس رہتی ہے۔ سیاستدان یا افسران غلط سفارش بھی کر دیں تو پکڑ ہو جاتی ہے۔ انگلش کم بولی جاتی ہے لیکن باقی یورپ کی طرف انگلش بولنے والوں سے نفرت نہیں کرتے۔ سپین کے لوگوں کی سب سے بڑی خوبی یہ دیکھی گئی ہے کہ پاکستانیوں کے ساتھ انکے تعلقات اور معاملات بہت اچھے ہیں۔ پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد سپین کے لوگوں کے ساتھ کام کرتے ہیں اسی طرح Spanish بڑی تعداد میں پاکستانیوں کے سٹورز پر خوشی خوشی کام کرتے ہیں۔ دونوں قومیں نفرت کی بجائے محبت و پیار اور تعاون کے ساتھ چل رہے ہیں۔ سپین کی ایک تاریخ ہے۔ اسلام کی یادگاریں بھی ہیں اورخوبصورت مقام بھی۔ ایک تاریخ لئے ہوئے سپین ترقی کر رہا ہے۔ یورپ کے ملکوں کے مقابلے میں سب سے اچھا موسم ہے۔ گزشتہ دنوں جب میں بارسلونا پہنچا تو پورا یورپ برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ صرف سپین ہی دھوپ کے مزے لے رہا تھا۔ سردی تھی لیکن ایسی نہیں کہ برداشت نہ ہو سکے۔ معروف صحافی سہیل وڑائچ نے سپین پر اتنے پروگرام کئے کہ پاکستانیوں کو سپین اچھا لگنے لگ گیا اور لوگوں کو ایسے احساس ہوا کہ جیسے انہوں نے سپین کو Discover کر دیا ہے۔میں بارسلونا پہنچا تو چوہدری امانت حسین مہر کا مہمان تھا پاکستان سے محبت کرنے والے اس شخص کے سب پاکستانیوں کا یہ میزبان ہوتا ہے۔ دس سالوں میں سپین کے بڑے کاروباری لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ ابتدائی جوانی میں اتنی ترقی کم ہی لوگ کرتے ہیں جتنی چودھری امانت نے کی ہے۔ جہلم کے رہنے والے اس شخص نے تو کمال ہی کر دیا ہے اور سپین حکومت کی طرف سے Best Business Awardحاصل کیا۔ یہ پاکستان کی بڑی عزت کی بات ہے۔ پانچ دن کے قیام میں روزانہ ہی دعوتوں کا سلسلہ رہا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کے لوگوں نے بڑی محبت کی اور یہ بھی احساس دلایا کہ ہماری سیاسی پارٹیاں ضرور الگ الگ ہیں لیکن سپین میں ہم سب پاکستان کیلئے ایک ہیں۔ جن کا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں وہ پاکستانی کمیونٹی کے پلیٹ فارم سے سرگرم ہیں۔ شفقت علی رضا اور رضوان کاظمی تو ہر محفل کی جان ہوتے ہیں۔ ہر ایک کا خیال رکھنا تو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ چودھری امانت حسین مہر، چوہدری امتیاز آکیہ‘ راجہ کامران اور راجہ بشارت نے دعوت دی تو سب ہی موجود تھے۔ اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر پاکستان سے آئے ہوئے مہمان کو عزت دیتے تھے۔ چوہدری امتیاز آکیہ کی دعوت میں تو پاکستانیوں نے سوالات بھی کئے۔ ان سوال کرنے والوں میں چوہدری اقبال سب سے نمایاں تھے۔ انکا ڈاکٹر طاہرالقادری سے تعلق ہے لیکن لبرل پاکستانی ہیں اور پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ PPP کے حافظ صادق کو تشویش تھی کہ میں نے پیپلزپارٹی کیوں چھوڑی جس پر مجھے لمبی چوڑی وضاحت کرنی پڑی۔ شکریہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے دوستوں نے جہاں جمہوریت کیلئے میری جدوجہد کو سراہا وہاں پیپلزپارٹی چھوڑنے کے میرے موقف کی بھی تائید کی۔
بارسلونا کی دعوتوں میں پاکستانیوں کی پانامہ لیکس کے مقدمہ کی بہت فکر تھی۔ 2018ء کے الیکشن میں کیا ہو گا اس پر اپنے اپنے اندازے تھے، پیپلزپارٹی کے زوال پر بہت سوالات تھے اور سب سے بڑھ کر ملک کے مستقل کی فکر تھی۔ میں نے گزارش کی کہ پاکستان میں جمہوریت نشوونما پا رہی ہے۔ جمہوریت کی جڑیں ابھی مضبوط نہیں ہوئیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 2008ء کی اسمبلی اور صدر نے پانچ سالہ مدت پوری کی ہے۔ ARD کے پلیٹ فارم سے مرحوم نوابزادہ نصراللہ کے ساتھ مل کر ہم نے جو پودا لگایا تھا اس کی وجہ سے جمہوری سفر کا آغاز ہوا۔ اس بحث میں نہیں پڑنا چاہئے کہ پانچ سالہ مدت کرنے میں پی پی پی نے کیا کھویا اور کیا پایا لیکن سچ یہ ہے کہ جمہوریت نے بہت کچھ پایا۔ 2013ء کے الیکشن میں اقتدار ایک پارٹی سے نکل کر دوسری پارٹی کو ٹرانسفر ہوا۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس لئے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح آج تمام سیاسی پارٹیاں حکومت، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں شریک ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں حکومت کر رہی ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان کی پارٹی مرکزی حکومت میں شامل ہے جبکہ پاکستان نیشنل پارٹی اور پختون خواہ مل پارٹی مرکز اور بلوچستان کی حکومت میں شامل ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بلوچستان کی حکومت میں شریک ہے۔ KPK میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمہوری وطن پارٹی حکومت کر رہی ہے جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی اقتدار کے مزے لے رہی ہے اس طرح ملک کی 9 بڑی اور چھوٹی پارٹیاں اقتدار میں شریک ہیں اور جمہوری طریقوں سے ایک رول ادا کر رہی ہیں۔ میںنے سپین میں موجود پاکستانیوں سے کہاکہ فکر کی ضرورت نہیں۔ آپ لوگ یقین کر لیں کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ آج ملک میں ترقی کا مقابلہ ہے۔ ایک پارٹی میٹرو اور پل بنانے کو ترقی کہتی ہے تو دوسری پارٹی ہسپتال اور سکول بنانے کو ترقی کا نام دیتی ہے جبکہ ایک پارٹی سڑکیں بنانے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں اختلاف جمہوریت کا حسن ہے لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان میں یہ اختلاف اپنے اپنے زاویے سے ملک کو ترقی کی طرف لے جانے کا اختلاف ہے۔ جلسے اور جلوس جمہوریت کا حصہ ہوتے ہیں اس سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ دھرنے بھی ضروری ہیں تاکہ حکومت وقت کی سمت درست رہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024