قارئین جیسا کہ ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں بلکہ جانتے ہیں کہ کینسر جیسا مہلک مرض صدیوں سے لاعلاج تھا، رفتہ رفتہ سائنس نے دم بخود کر دینے والی ترقی کی تو اس کا علاج کسی حد تک ممکن ہو گیا لیکن آج ہم جس کینسر کی بات کر رہے ہیں وہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی کینسر کی بات ہے اور روح کا یہ کینسر وہ کینسر ہے جس نے آج کے سطحی انسان کو بلکہ پوری انسانیت کو تباہی کے آخری کنارے تک پہنچا دیا ہے۔ وہ شاید زندگی کو محض آسانی سے گزارنے کے شوق میں یہ سوچنا نہیں چاہتا کہ اُس کے اندر جھوٹ، جیلسی (حسد) اور بدنیتی کے تین عدد کتنے بڑے بڑے تباہ کن جرثومے رینگ رہے ہیں، اُسے اندر ہی اندر چاٹ رہے ہیں، چوس رہے ہیں اور پیس رہے ہیں بلکہ اُسے مکمل طور پر تہس نہس کر رہے ہیں!قارئین یہ تین جرثومے کینسر جیسی مہلک بیماری سے بھی زیادہ مہلک ہیں۔ آپ اگر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ لمحہ موجود میں تقریباً نوے فیصد لوگ دن بھر میں نوے فیصد جھوٹ بول بول کر خود کو جینے کا اور دوسروں کو بلاجواز مرنے کا جواز مہیا کر رہے ہیں، ہر شخص دوسرے شخص کے ساتھ انتہائی سچائی جیسی خوداعتمادی کے ساتھ جھوٹ بول رہا ہے۔ احساسِ کمتری کی وجہ سے حسد کی آگ میں خود جل رہا ہے تو ساتھ ہی دوسروں کو بھی جھلسا رہا ہے۔ اپنی بدنیتی کی نظر سے نظر نہ آسکنے والے بدنیتی کے قاتل کیڑے سے ڈسے جانے کی وجہ سے نیم جان ہے۔ وہ اُسے اندر ہی اندر چُگ رہا ہے مگر وہ اپنی اِس بات کو بلکہ اِس جرم کو تسلیم نہیں کرتا ہے مختصراً یوں سمجھئے کہ آجکل جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کے معنوں میں اِس کثرت اور تسلسل سے استعمال کیا جارہا ہے کہ دونوں کے معنی ایک دوسرے سے اَدل بَدل کر رہ گئے ہیں۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب شریف اور سادہ صفت لوگوں کو مارے حسد کے ڈسا نہ جارہا ہو، جھوٹ بول بول کر انہیں نفسیاتی سطح پر تباہ نہ کیا جارہا ہو، بدنیتی کے وار کر کے زخمی نہ کیا جارہا ہو۔ خدارا اپنے اندر اِن بظاہر نظر نہ آنے والے قاتل کیڑوں کی پیدائش و پرورش سے خود کو بچائیے۔ اپنی مکمل نیکی سے بدنیتی کو اور مکمل سچائی سے جھوٹ کو کچل ڈالیں، جس قدر ممکن ہو سکے، جتنا زور لگانا پڑے، رشتوں پر، جذبوں پر، جذبات پر جتنی بھی ضرب پڑے، پڑنے دیں، آپ کے مفادات واضح طور پر نقصانات میں تبدیل ہونے کا حتمی امکان موجود ہو تب بھی کسی صورت جھوٹ نہ بولیں بلکہ حتمی طور پر سچائی کی حتمی جیت پر اعتبار رکھیں۔ خوابوں میں، خیالوں میں، سوچوں میں بھی سچائی سے گریز نہ کریں۔ آپ یقیناً کامران ہونگے۔ یہ روحانی کینسر بھی جسمانی کینسر کی طرح قابلِ علاج ہے بس صرف آپ کو اخلاقی زور لگانا پڑے گا، چھوٹے چھوٹے وقتی اور عارضی خسارے برداشت کرنے پڑیں گے مگر اِس کا ثمر دنیا میں اور اَجر آخرت میں یقینی طور پر موجود ہے۔ دوسرا جرثومہ حسد کا ہے یہ ایسی خوفناک مائع آگ ہے جو جلن اور کڑھن کی صورت میں آپ خود اپنے ہاتھوں اپنے اندر بھڑکاتے ہیں۔ یہ ہر لمحہ آپ کے اندر بھڑکتی رہتی ہے۔ آپ راکھ ہوتے رہتے ہیں اور پھر اپنی آنکھوں اور منہ سے یہ راکھ اُگلے رہتے ہیں جبکہ محسود خوش ہوتا رہا ہے دراصل حسد ’’اپنی سزا آپ‘‘ کے طور پر بطور پِسو آپ کے اندر گھومتا رہتا ہے اور آپ کو نامعلوم انداز سے ریزہ ریزہ کرتا رہتا ہے جس سے آپ حسد کر رہے ہوتے ہیں اُس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ آپ کی اپنی زندگی بگڑتی رہتی ہے بلکہ عاقبت بھی بگڑتی رہتی ہے سو جس حد تک ممکن ہو سکے اِس گناہ سے بہرصورت بچئے، آپ کی بچت اِس سے بچنے میں ہی ہے ورنہ اپنی نظروں سے خود ہی گر گر کر مکمل طور پر بے کردار ہو کر خاکستر ہو جائیں گے۔ قارئین کرام روحانی کینسر کا تیسرا مہلک جرثومہ کالی نیت یا بدنیتی ہے۔ یہ پراسرار تباہ کن زہر بھی آپ کے رَگ و پے میں انتہائی خاموشی اور آہستگی سے بلکہ آپ کی سوچوں اور ارادوں میں گھومتا رہتا ہے۔ آپ اِس سے پوری طرح آشنا ہوتے ہیں پھر بھی عادت سے مجبور ہو کر بدی کی اِس بے منزل راہ پر رواں رہتے ہیں۔ دوسروں کو بغیر کسی وجہ کے ہر لمحہ ضرر پہنچانے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ بدنیتی بنیادی طور پر آپ کے احساسِ کمتری کی اولاد ہے۔ جب آپ اپنے کسی مدِمقابل کو اپنی مسلسل ناکامیوں کے مقابلے میں کامیاب پاتے ہیں اُس کی حاصل شدہ نعمتوں کو مقابلتاً زیادہ مقدار میں دیکھتے ہیں تو یکایک آپ بدنیت ہو جاتے ہیں، ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے دوسروں کو دُکھ اور ضرر پہنچے۔ یہ کفر نہیں تو اور کیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی اکمل تقسیم سے عملاً انحراف کرنے لگتے ہیں۔ سوچتے ہیں وہ سب کچھ آپ کو کیوں حاصل نہیں ہے جو دوسروں کا مقدر ہے یوں آپ ہر لمحہ نظر نہ آنے والے بدنیتی کے چھوٹے چھوٹے گناہ کرتے رہتے ہیں۔ کالی سوچوں کے ہاتھوں اپنی آخرت تباہ کر لیتے ہیں، سکونِ قلبِ غارت ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ خود کو بھاری اور کاری گناہوں پر مائل کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں گویا روحانی طور پر بیمار ہو جاتے ہیں۔ بہرحال اِس مہلک کینسر کا علاج بھی ممکن ہے۔ آپ ہمت کر کے مکمل نیک بن جائیے بلکہ سیدھی سطروں پر زندگی گزارنے کیلئے پوری جان صرف کر دیں۔ توبہ اور استغفار کا ورد کیجئے، بدنیتی سے باقاعدہ گناہ کی طرح تائب ہونے کا عزم کر لیں، یقین کیجئے آپ کو جسمانی کینسر کی طرح روحانی کینسر سے بھی نجات مل جائے گی۔ اگر مٹی کی طرح بھر جانے والے جسمانی کینسر کا علاج ممکن ہے تو روحانی بیماریوں کا علاج کیسے ناممکن ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے کرم سے اِن تین جرثوموں سے بچ کر پورا معاشرہ اس مہلک مرض سے محفوظ ہو سکتا ہے۔ آپ ہمت کیجئے، اللہ کی رحمت ہمارے ساتھ ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024