یہ 1856ء کا زمانہ تھا جب موجودہ روس کے قریبی علاقے بیلاروس میں ایک پولینڈ فیملی کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کانام ’’اگناسی‘‘ رکھا گیا۔ اگناسی جب 19 برس کا ہوا تو اُس نے روس کے مشہور شہر سینٹ پیٹرزبرگ کے پولی ٹیکنیک سکول میں میتھ میٹکس کی کلاس میں داخلہ لے لیا۔ وہاں اُس کی ملاقات کچھ مقامی سوشلسٹ انقلابی نظریے کے لوگوں سے ہوئی۔ جلد ہی اُس نے روسی بادشاہت کے خلاف انقلابی سوشلزم تحریک ’’پیپلز فریڈم‘‘ میں شمولیت اختیار کرلی۔ بہت جلدہی 1880ء میں اگناسی کو طالبعلموں اور مزدوروں میں سوشلسٹ انقلابی پراپیگنڈہ پھیلانے کا انچارج بنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اُسے ایک خفیہ پریس سے سوشلسٹ انقلابی رسالے ’’ورکرز گزٹ‘‘ کو ٹائپ کرنے اور شائع کرنے کا آرگنائزر بھی مقرر کیا گیا۔ ٹھیک ایک برس بعد فروری 1881ء میں اگناسی نے اپنی تحریک کے بم پھینکنے والے یونٹ میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہ یونٹ اُس وقت کے روسی بادشاہ زار الیگزینڈر دوئم کو ہلاک کرنے کی غرض سے بنایا گیا تھا۔ بم یونٹ میں شمولیت کے ایک ماہ بعد 12 مارچ 1881ء کی رات کو اگناسی نے اپنی قوم کی نئی نسل کے لئے ایک خط تحریر کیا۔ اُس نے لکھا کہ ’’بادشاہ زار الیگزینڈر دوئم ضرور ہلاک ہوگا۔ بادشاہ کے ساتھ میں بھی مروں گا۔ میں نوجوانی میں ہی مرکر انقلابی تحریک میں اپنا حصہ ادا کروں گا۔ میں اگلی صبح کے پورے دن تک زندہ نہیں رہوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ میں اپنی موت کے ساتھ انقلابی تحریک کے اپنے فرائض پورے کردوں گا۔ اس کے بعد کوئی بھی مجھ سے مزید کچھ کرنے کا مطالبہ نہیں کرسکے گا‘‘۔ اگلے روز 13 مارچ 1881ء کو صبح کے وقت بادشاہ زار الیگزینڈر دوئم دو سیٹوں والی ایک محفوظ گاڑی میں جارہا تھا۔ گاڑی میں کوچوان کے پیچھے بادشاہ کا ایک مسلح گارڈ بیٹھا تھا جبکہ اسلحہ اٹھائے چھ چاق و چوبند گھڑسواروں نے گاڑی کے گرد حفاظتی گھیرا بھی بنارکھا تھا۔ جونہی شاہی سواری سڑک کی نکر پر کیتھرین نہر کے پاس پہنچی تو وہاں پہلے سے موجود چند عام لوگوں میں سے کسی ایک نے اپنے ساتھ کھڑے ساتھیوں کو ایک مخصوص اشارہ کیا۔ اشارے پاتے ہی دو دستی بم بادشاہ کی گاڑی پر پھینکے گئے۔ اچانک حملے اور بارود کی آواز سے بھگدڑ مچ گئی۔ بادشاہ زار اس حملے میں بالکل محفوظ رہا جبکہ اُس کے دو گھڑسوار محافظ زخمی ہوئے۔ بادشاہ اپنی محفوظ گاڑی سے نکل کر زخمی محافظوں کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے مسلح گارڈ نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اسے ایسا کرنے سے روکا مگر بادشاہ نے کہا کہ ’’شکر ہے میں بچ گیا ہوں‘‘ اور وہ گاڑی سے باہر آگیا۔ عین اُسی وقت بادشاہ کے بالکل قریب نہر کے جنگلے پر جھکے ایک نوجوان کی تیز آواز بلند ہوئی کہ ’’بادشاہ !تم اپنی زندگی بچ جانے کا شکر جلدی کرگئے ہو‘‘ اور اس کے ساتھ ہی جھکا ہوا نوجوان اچھل کر بادشاہ کے قریب جاگرا۔ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور بادشاہ کے جسم کے ٹکڑے دور تک پھیل گئے۔ وہ نوجوان بری طرح زخمی ہوکر بے ہوش ہوگیا۔ محافظوں نے اُسے فوری طور پر تفتیشی سینٹر منتقل کیا۔ تھوڑی دیر بعد نوبجے کے قریب جب نوجوان کو کچھ ہوش آیا تو تفتیش کرنے والوں نے اُس سے مختلف سوالات کئے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک سخت تفتیشی مراحل سے گزرنے کے باوجود نوجوان نے کسی بھی سوال کا جواب نہ دیا اور ساڑھے دس بجے زخموں کے باعث مرگیا۔ وہ نوجوان اگناسی ہی تھا جو 25 برس کی عمر میں دنیا کا پہلا خودکش حملہ آور بنا اور روسی بادشاہ زار الیگزینڈر دوئم ماڈرن تاریخ میں خودکش حملے کے دوران ہلاک ہونے والی پہلی اعلیٰ ترین شخصیت تھی۔ خودکش حملوں کی اس خوفناک ایجاد کے بعد گزشتہ سوا صدی سے زائد کے دوران ہزاروں افراد اس تکنیک سے ہلاک ہوئے اور ہزاروں معذور ہوئے لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی خودکش حملوں کی تکنیک اور فلاسفی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ مثلاً خودکش حملوں میں نوجوانوں کو ہی استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ پہلا خودکش حملہ آور اگناسی نوجوان تھا۔ نوجوان جذباتی ہوتے ہیںاور کسی بھی نظریئے سے بہت جلد متاثر ہوسکتے ہیں جیسا کہ پہلے خودکش حملہ آور اگناسی نے جلد ہی انقلابی سوشلسٹ تحریک جوائن کرلی۔ نوجوانوں کو خاص ماحول میں رکھ کر نفسیاتی طور پر قابو کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے خودکش حملہ آور اگناسی کو تیزی سے تنظیم کے اہم عہدوں پر مقرر کیا گیا۔ خودکش حملہ آور نوجوان کو اس بات کا یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں سب سے نیک کام کرنے جارہا ہے۔ جیسا کہ پہلے خودکش حملہ آور اگناسی نے اپنے خط میں تحریر کیا۔ خودکش حملے میں عموماً دوسرے ملک سے آکر متاثرہ ملک میں سکونت اختیار کئے ہوئے نوجوانوں کو زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ پہلا خودکش حملہ آور اگناسی روس میں آباد پولینڈ خاندان سے تھا۔ خودکش حملہ آور کے سہولت کار عموماً مقامی لوگ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے خودکش حملہ آور اگناسی کو کچھ لوگ روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں ملے۔ خودکش حملہ آور کو یہ بات ہرگز پتہ نہیں چلتی کہ وہ کسی اور کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ اُسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ جن لوگوں کو وہ نشانہ بنا رہا ہے، وہ متاثرہ لوگ دراصل اُس ملک کے دشمنوں کا نشانہ ہیں۔ جیسا کہ پہلا خودکش حملہ آور اگناسی اُس وقت کے روسی نظام حکومت کے مخالف لوگوں کا آلہ کار بنا۔ خودکش حملوں میں غیرملکی سپانسرشپ ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے خودکش حملے میں روسی بادشاہت کے خلاف مغربی ایجنڈہ کام کررہا تھا۔ خودکش حملوں کی ہسٹری یہ بھی بتاتی ہے کہ روسی بادشاہ کو ہلاک کرنے والے پہلے خودکش حملے اور روسی کمیونزم والے سوویت یونین کو توڑنے کے بعدسے لے کراب تک زیادہ متاثرہ ملکوں میں ایشیاء اور عرب کے مسلمان ممالک افغانستان، پاکستان، عراق، شام اور لبنان وغیرہ شامل ہیںجبکہ یورپ ،امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ اس تباہی سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔مزید یہ کہ دنیا کے پہلے خود کش حملے یعنی 13 مارچ 1881ء سے لے کر ٹھیک ایک سو پینتیس برس گیارہ ماہ گزرنے کے بعد 13 فروری 2017ء کو لاہور میں اور اس کے بعدپشاورو مہمند ایجنسی میںخود کش حملوں کی ہسٹری شیٹ میںسب سے اہم مشترکہ بات یہ ہے کہ متاثرہ ملک کی سیاست کے بعض عناصر میںخودکش حملہ آوروں کے نظریے کے لیے کچھ نہ کچھ ہمدردی ضرور پائی جاتی ہے یعنی گھر کے بھیدی ہی لنکا ڈھاتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38