سول بالادستی کا مطلب اگر آئین کی سربلندی اور قانون کی عملداری ہے تو اس کیلئے تنگ و دو اور خواہش کو لاکھوں سلام‘ ملک کے سیاسی منظر نامے کا جائزہ لیا جائے تو سول بالادستی کے ادوار سول بالادست طبقے کے مفادات کے حصول و تحفظ کی باندی نظر آتے ہیں اور یہ حسرت کرچیاں بن کر آنکھوں میں چُبھ رہی ہے کہ عام آدمی کے حقوق و مفاد کیلئے پارلیمنٹ کی پوری نشستیں بھری ہوئی نظر آئیں جس طرح ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کے وقت ایوان میں میلہ سجا ہوتا ہے۔ کئی سال پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی رپورٹنگ کے دوران آنکھیں ایسے کسی منظر کی دید کو ترستی ہی رہیں۔ قومی اسمبلی سے بھی ایسی خبر عنقا ہی رہی۔ دراصل عام آدمی کو تو پولنگ کے روز ہی مختلف انداز سے اس کے ووٹ کی قیمت چکا دی جاتی ہے۔ الیکشن جیتنے کیلئے خرچ کئے گئے کروڑوں روپے عام آدمی نے تو نہیں دیئے ہوتے کہ ان کے معاملات و مسائل ترجیحات کے دائرے میں آئیں‘ لہٰذا جمہوریت کے باب میں سول بالادستی کی تعریف سے آئین و قانون کی روح کے مطابق ہونے والے فیصلوں پر ہر ادارے اور فرد کا سرنگوں ہونا اور پالیسیوں کی کامیابی کیلئے کردار ادا کرنا جبکہ وطن عزیز میں تو جیسا پہلے عرض کیا گیا بالادست طبقہ کے مفادات اور من مانیوں کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی اپنے نجی مسئلہ مسائل کیلئے بھی سپریم کورٹ کی جانب دیکھتا ہے اور اجتماعی مسائل و معاملات کی گتھی سلجھانے کا ذریعہ آرمی چیف سمجھا جاتا ہے جس کا ایسی چیزوں سے منصبی ذمہ داریوں کے اعتبار سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘ (ن) لیگ کے صدر نوازشریف‘ پیپلزپارٹی کے قائد آصف زرداری‘ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان‘ جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی جو اب دیں کہ فاٹا عمائدین کا وفد اور فاٹا کے نوجوانوں کا ایک گروپ پارلیمنٹ کا در کھٹکھٹانے کے بجائے جی ایچ کیو کے دروازے پر دستک دینے کیوں گیا کیا ان سول بالادستی کے علمبرداروں کے عمومی رویوں اور سیاسی مفادت کی کھینچا تانی سے جنم لینے والی مایوسی اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ فاٹا کا الگ صوبہ بننا ہرگز مخالفت کا جواز نہیں بنتا لیکن موجودہ حالات میں اس کا خیبر پختونخواہ کے ساتھ ضم ہونا ہی درست لگتا ہے۔ دوسرے وہاں کے عوام جب خود یہ انضمام چاہتے ہیں تو پھر اس میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستانی شہری کی حیثیت میں قومی دھارے میں شامل ہونا ان کی خواہش کے ساتھ ناقابل انکار حق بھی ہے۔ یہ سراسر ظلم و نا انصافی ہے کہ وہ آج کے جدید دور میں بھی 116 سال پرانے استبدادی نظام‘ فرنٹیئر کرائمنز ریگولیشنز (ایف سی آر) کے تسلط میں ہیں جس کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا ہے۔ انگریزی استبداد کی اس جکڑبندی کا مقصد تو قبائلی عوام کودبا کر رکھنا تھا کہ ان کی فطرت حریت پسندی ہر لمحے انگریزی اقتدار کے لئے خطرے کی گھنٹی نہیں بلکہ گھڑیال تھی انصاف پسندی کا جھوٹا لبادہ اوڑھنے والے انگریز کے اس قانون کی ستم رانیاں ملاحظہ ہوں ایف سی آر کی دفعہ 21 اور 22 کے تحت کسی جرم کا مرتکب شخص خود ہی نہیں بلکہ اس کا پورا قبیلہ ذمہ دار سمجھا جائے گا اور پورے قبیلے کی جائیداد ضبط‘ جرمانہ‘ گرفتاری اور پورے قبیلے کو قید کی سزا۔ اس قانون کی سفاکی کا اندازہ لگایا جائے کہ پانچ‘ پانچ سال کی دو بچیوں کو 25‘ 25 سال قید بھگتنے کے ڈیرہ اسماعیل خان جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے آصف زرداری سے لے کر نچلی سطح کے پیپلزپارٹی کے لیڈروں نے اپنی ”انسان دوستی“ کا ڈھول پیٹا۔ 2011ءمیں قبائلی قوانین میں ترمیم کے ذریعے یہ طے کیا کہ خواتین‘ 16 سال سے کم عمر بچے اور 65 سال سے زائد عمر کے بزرگوں کو گرفتار نہیں کیا جائے گا باقی پورے قبیلے کی جائیداد کی ضبطی‘ گرفتاری‘ جرمانہ اور قید کی سزا برقرار رہنے دی گئی۔ اس پر بے شرمی سے انسانی حقوق کی علمبرداری کا دعویٰ کیا گیا۔ دفعہ 30 کے تحت بدکاری کا جرم صرف عورت کرسکتی ہے اور وہ ہی سزا کی مستحق ہے مرد کو کوئی سزا نہیں ملے گی دفعہ 40کے تحت پولیٹکل ایجنٹ جو ہمیشہ انگریز ہوتے تھے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو کوئی وجہ بتائے بغیر تین سال کیلئے قید کرسکتا ہے اسے نہ تو وکیل کرنے کا اختیار ہے نہ اپیل کی اجازت ہے۔ کراچی میں ثابت شدہ مجرموں کو تفتیش کیلئے تین ماہ رینجرز کی تحویل میں رکھنے کے قانون کے خلاف انسانی حقوق کے منافی ہونے کا واویلا تو صوبائی حکمران جماعت پیپلزپارٹی سمیت بہت سوں نے کیا مگر کسی جرم کے بغیر تین سا قید رکھنے کا قانون کسی کو انسانی حقوق کے منافی نظر نہیں آیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملاقات کرنے والے قبائلیوں کو یقین دلایا کہ فوج انہیں قومی دھارے میں لانے کی حمایت کرتی ہے۔ قبائلی عوام کی قربانیاں ‘ دہشت گردی کیخلاف پاک فوج کی کامیابی معاون بنیں۔
9 ستمبر 2015ءکو فاٹا کے 19 پارلیمانی ارکان نے فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کیلئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں بل جمع کرایا۔ (ن) لیگ کی حکومت نے فاٹا کو قومی دھارے میں لاکر دہشت گردی اور بدامنی پر قابو پانے کی اہمیت کا ادراک کیا۔ سرتاج عزیز کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی جس نے سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین کی اکثریت کی حمایت حاصل کی اور فیصلہ کیا گیا کہ فاٹا کو 2018ءکے الیکشن سے قبل خیبر پی کے کا حصہ بنانے کے قابل بنایا جائے گا۔ ایف آر سی کی جگہ نیا رواج ریگولیشن لایا جائے گا۔ قبیلے کی بجائے اپنے جرم کا ہر شخص خود ذمہ دار ہوگا۔ عدالتی دائرہ پشاور ہائیکورٹ تک بڑھا دیا جائے گا۔ 20 ہزار لیویز بھرتی کئے جائیں گے 321 ارب روپے کے اضافی بجٹ کے ساتھ ترقیاتی و انتظامی امور کی نگرانی کیلئے گورننس کونسل قائم کی منظوری دی گئی مگر مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے خیبر پختونخواہ کے انضمام کی مخالفت کردی۔ محمود خان اچکزئی تو یہاں تک بڑھ گئے کہ” فاٹا پاکستان کا حصہ نہیں‘ آزاد علاقہ ہے“ لیکن اچکزئی کے پاس اس سوال کا یقینی طور پر جواب نہیں ہے کہ قبائلی لوگوں کے پاسپورٹ اور قومیت کے خانے میں پاکستانی کیوں لکھا ہوتا ہے۔ اگر یہ پاکستان کا حصہ نہیں ہے بہرحال ان دونوں نے حکومت کو مشکل کا شکار کردیا ہے کہ اگر فاٹا کے خیبر پی کے سے انضمام کا فیصلہ نہ کیا جائے تو دیگر سیاسی جماعتیں ناخوش ہوں گی اور اگر کیا جائے تو مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی ناراض ہوں گے۔ اس باعث پانچویں روز بھی فاٹا بل ایوان میں پیش نہیں کیا جاسکا اور اجلاس پیر تک ملتوی ہوگیا۔ اب اس مخمصہ کا حل یہ ہے کہ فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعہ عوام سے لے لیا جائے ویسے الگ صوبہ بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ افغانستان جیسے کم آبادی والے ملک کے 34 صوبے ہیں‘ ایران کی آٹھ کروڑ آبادی کے 31 صوبے ہیں‘ ازبکستان کی آبادی اور رقبہ میں بہت چھوٹا ہونے کے باوجود 21 صوبے ہیں اس لئے فاٹا کا الگ صوبہ انتظامی لحاظ سے بہتر فیصلہ ہوسکتا ہے مگر یہ سیاسی جماعتوں کے مفادات کے تابع نہیں بلکہ فاٹا کے عوام کی مرضی کا عکاس ہونا چاہئے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024