دنیاکے دستور نرالے کہیں گورے کہیں کالے ،کوئی جھونپڑی میں خوش ہے تو کو ئی بیش قیمت محلات میں بھی بے چین ۔پھر بھی انسان بلند سے بلند عمارات کی تعمیر میں مگن ہے مگر یہ بڑی بڑی شاہراہیں اوربلند وبالا عمارتیں کسی ملک کی ترقی کی علامت ہوتی ہیں نہ خوشحالی کا ثبوت بلکہ جب تک عام آدمی کے مسائل حل نہ ہوں ترقی کا تصور ممکن نہیں۔جہاں عام آدمی روزی روٹی کے علاوہ صحت و تعلیم اور جان و مال کے تحفظ جیسے مسائل میں گرفتار ہو۔وہاں ان مسائل کی جانب توجہ دئیے بغیر ترقی محض ایک خواب تو ہو سکتی ہے مگر حقیقت نہیں۔ جب سرکاری ملازمتوں کے مواقع کا فقدان ہو، رشوت اور سفارش کے بغیر کام نہ ہو اور نجی شعبہ کرپشن اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سسکیاں لے رہاہو تو عام آدمی کا روزی روٹی کے چکر میں مبتلا رہنا عین فطری بات ہے۔ حکومت اگرچہ صحت کے شعبہ میں زر کثیر خرچ کرتی ہے۔ ،ہسپتالوں کی دیو ہیکل عمارتوں میں ڈاکٹروں اور نرسنگ سٹاف کی بھی کمی نہیں۔ پھر بھی عام آدمی کو دوائی کی بجائے دھکوں کے سوا کچھ نہ ملے تو صحت کے مسائل سے دوچار رہنا عام آدمی اپنی قسمت کا لکھا نہ سمجھے تو کیا کرے ۔یونیورسٹی سطح کے اکثرتعلیمی اداروں کے نجی شعبہ میں جانے کے بعد تعلیم کا زیور بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ وہ علم کی پیاس بجھانے کیلئے کہاں جائے ؟ اسکے پاس تعلیم کا کیا نعم البدل ہے؟ لا محالہ عام آدمی کو تعلیم سے محرومی کے باوجود اپنی قسمت پر صبر و شکر کرنا پڑے گا۔ اسی طرح بات اگر انصاف کی چلے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ انصاف اتنا مہنگا اور مشکل ہے کہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔قتل کے مقدمات کی کاروائی سپریم کورٹ تک جاتی ہے مگر فیصلوں پر عمل نہ ہو تو مظلوم کہاں جائے اور انصاف کیلئے کس کا دروازہ کھٹکھٹائے؟ غریب کے یہ مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک رشوت اور بد عنوانی کا خاتمہ نہ ہو۔اور اس لعنت سے چھٹکارہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قانون کی حکمرانی نہ ہو۔اور بد قسمتی سے یہ مسئلہ نظام انتخاب سے جڑا ہوا ہے۔لہذا جب تک قیادت کے انتخاب کے نظام میں اصلاحات متعارف نہیں ہونگی ان مسائل کے حل کا کوئی فارمولہ ترقی کیلئے مثبت پیشرفت کی ضمانت نہیں دے سکتا ۔ روائتی طریقہ انتخاب میں جو بڑے نقائص پائے جاتے ہیں ان میں پیسے کا بے جا تصرف سر فہرست ہے۔ پیسے کا بے جا تصرف ایک وباء کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ در اصل یہی برائی کی جڑ ہے ۔ کوئی امیدوار کتنا اہل یاتجربہ کار ہے،وہ کتنا دیانتدار اور مخلص ہے اور وہ کس قدر قومی خدمت کے جذبے سے سرشار ہے، ووٹر کو اس سے کوئی سروکار نہیں ۔ووٹر صرف اور صرف اپنے ذاتی کاموں کے حصار میں ہوتاہے ۔وہ اپنے تھانے کچہری کے مسئلے کا حل ڈھونڈتا پھرتا ہے ۔وہ نوکری کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ وہ صحت اور تعلیم اور دیگر مسائل سے اسلئے پریشان ہے کہ اسکے پاس ان مسائل کے حل کیلئے کوئی میکانزم موجود نہیں۔ جب وقت آتا ہے تو وہ کیوں نہ اپنے ذاتی مسائل کی بات کرے ۔مگر ناقص سسٹم کی بنا پر امیدوار بھی اپنے ووٹر کے مسائل کادیر پا حل تجویز کرنے سے قاصر ہوتا ہے ۔ وہ اپنی کامیابی کی غرض سے اپنے آپ کو مسیحا کے طور پر پیش کرتے ہوئے حلقے کے نیک یا بد مگر تگڑے لوگوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی نشست پر انتخاب لڑنے کیلئے امیدوار کا خرچہ کئی کروڑ سے تجاوز کر جاتا ہے۔سب سے پہلے تو کسی بھی پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے اسے پارٹی فنڈ کے نام پرخطیر رقم جمع کروانا پڑتی ہے۔اسے اشتہا رات ،جلسے جلوس اور جوڑ توڑ پر بھاری رقوم خرچ کرنا پڑتی ہیں ۔ پھر الیکشن ایجنٹ اور پولنگ ایجنٹس کا خرچہ امیدوار کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اسے بڑی بڑی ضیافتوں اور تقریبات کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ انتخابی مہم کیلئے لا تعداد گاڑیوں اور پٹرول کی مد میں امیدوار کو بے تحاشہ خرچہ کرنا پڑتا ہے۔کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بعض امیدواروں کی انتخابی مہم کا سارا خرچہ انویسٹرز برداشت کرتے ہیں۔ا نتخابات پر اٹھنے والے بے تحاشہ اخراجات کے بعد توقع کرنا کہ منتخب شخص اپنی غیر معمولی انویسٹمنٹ کو بھلا کر قوم کے غم کا جھومر اپنے ماتھے پر سجا لے گا ،عام حالات میں بالکل سمجھ سے باہر ہے۔ پیشتر اسکے کہ ایسے منتخب شخص سے قومی مفاد کی توقع کی جائے قوم کو اسے روائتی طریقہء انتخاب پر اٹھنے والے غیر معمولی ا خراجات کی لعنت سے نجات دلانے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ امیدوار کی انتخابی مہم کا طریقہ کاربدلنا ہوگا۔ انتخابی مہم کے اخراجات کا حجم کم کرکے امیدوار کیلئے انتخابی عمل کو سہل بنانا ہوگا۔ امیدوار کو بھی اپنی انتخابی مہم کے اخراجات کو ہر صورت مقررہ حدود کے اندر رکھنا ہوگا۔ روائتی طریقہء انتخاب سے منسلک دوسرا بڑا نقص غنڈہ گردی کا عنصر ہے۔دیہی پولنگ اسٹیشن خاص طور پر اس بدی کا ٹارگٹ بنتے ہیں۔ایسی صورتحال میں عام ووٹر کی آزادی سلب ہو کر رہ جاتی ہے۔ جب تک ووٹر کوآزادی سے ووٹ ڈالنے کی ضمانت نہیں دی جاتی ،شفاف جمہوری نظام تشکیل نہیں پا سکتا۔برادری ازم اور موروثیت بھی ایک منصفانہ،مربوط اور ٹرانسپیرنٹ جمہوری ماحول کے راستے کی بہت بڑی دیوار ہے۔اوراس میں کوئی دو رائے بھی نہیں کہ منصفانہ جمہوری ماحول سے عاری نظام عام آدمی کیلئے کوئی کشش نہیں رکھتا۔اگر نظام عام آدمی کی فلاح و بہبود اور اسکی مشکلات کے حل کی ضمانت دینے میں ناکام رہے توملکی ترقی ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے ۔اور پھر ہر دور میں ایک مٹھی بھر منظور نظر طبقہ نہ صرف بڑی بڑی پوزیشنیں حاصل کرنے اور اپنا کاروبار چمکانے کے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے بلکہ سیاہ و سفید کا مالک بن جاتا ہے ۔ ایسے نظام میں اقرباء پروری اس حد تک عروج پر ہوتی ہے کہ بڑے بڑے عہدے اور کاروباری پروانے اپنے مخصوص لوگوں میں ریوڑیوں کی طرح بانٹے جاتے ہیں۔ ایسی ترقی محض اعداد وشمار کا گورکھ دھندہ ہوتی ہے۔ اگر واقعی ملکی ترقی عزیز ہے تو ہمیں عام آدمی کی مشکلات کا ازالہ کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے ۔ ہر شہری کو مساوی مواقع،میرٹ اور انصاف بلا تاخیر مہیّا کرنے کے عزم سے احتساب کے عمل میں شفافیّت پر کوئی معمولی سے معمولی سمجھوتہ کرنے سے بھی باز رہنا ہوگا ۔ اگر عام آدمی کیلئے باعزت روزگار ، صحت، انصاف ، تعلیم اور ترقی کے مساوی مواقع کو یقینی بنا یا جائے ۔تو پھر کہا جا سکے گا کہ ملک صحیح معنوں میں ترقی کی جانب گامزن ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024