وقت بہت سے لوگوں کے چہروں پڑے نقاب الٹا دیتا ہے ۔کچھ لوگ برا وقت آنے پر بکھر جاتے ہیں کچھ نکھر جاتے ہیں۔ کچھ آزمائش کے وقت اپنوں سے بھی منہ موڑ لیتے ہیں اور کچھ طوفاں میں پھنسی ہوئی کشتیوں کو کنارے لگانے کیلئے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتے ۔ہر آزمائش میں پورا، ہر امتحان میں سرخرو، ہر دور میں اپنے نظریات کا پہرا دینے بالا شخص بے شک اس شہباز شریف کیلئے یہ الفاظ بالکل فٹ بیٹھتے ہیں ۔سیاست کبھی بھی کسی کیلئے پھولوں کا بستر ثابت نہیں ہوئی ہے ۔مغربی ممالک کی جمہوریت اور ایشیا میں چلائی جانی والی جمہوریتوں میں بہت فرق ہے ۔پاکستان دنیا سے ابھی بھی پچاس سال پیچھے چل رہا ہے ۔دنیا میں ہر طرح کے ترقیاتی کام جب اپنی مدت پوری کر چکے ہوتے ہیں ۔پاکستان میں ان کاموں کو تب فالو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔یہ فرق ہوتا ہے سسٹم کی مضبوطی میں اور نظام کی مضبوطی میں ۔جن لوگوں کو جمہوریت کی سمجھ آگئی ۔ وہاں عوام کے ووٹ کو مکمل تحفظ دیا گیا ۔ووٹ کے تقدس کا سب نے خیال کیا۔جن ملکوں میں عوام کے منتخب نمائندوں کی قدر کی جاتی ہے، سسٹم مضبوط ہے، وہاں عوام کی ترقی کیلئے برابر مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں۔پانامہ کا ایشو جیسے بھی شروع ہوا اب یہ حقیت سب کیلئے روشن ہو چکی ہو گی کہ اس کا واضح اور سیدھا مطلب ملک میں مضبوط ہوتی جمہوریت اور معاشی ترقی کو روکنا تھا۔ اس کیلئے طاقتور اداروں نے کسے مہرہ بنایا یہ سب جانتے ہیں ۔پانامہ کی لسٹ میں چار سو کے قریب پاکستانیوں کے نام سامنے آئے تھے ۔مگر مقدمہ صرف حاکم وقت پر چلایا جانا مقصود تھا ۔ایک ایسی جماعت کے قائد کو ہدف بنایا جارہا تھا جو ملک میں امن کی واپسی کو ممکن بنا رہا تھا ۔جو توانائی کے منصوبوں پہ دن رات کا م کر رہا تھا ۔جس کا ہر وطن کی ترقی کی امید لے کے طلوع ہورہا تھا ۔مگر صرف نواز شریف کو کرسی اقتدار سے ہٹوا کے یہ ثابت کردیا گیا کہ اس ملک میں عوام کے ووٹ کی کوئی طاقت نہیں ہے۔ کوئی سیاست دان چاہے جتنے مرضی ووٹ حاصل کرلے، عوامی فلاح کے جتنے مرضی منصوبے مکمل کرتا چلا جائے ۔اسے جب چاہے دودھ میں پڑی مکھی کی طرح نکال باہر کیا جاتا رہے گا ۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہ سلسلہ چل نکلا تھا ۔عوامی ووٹ کی حرمت کا احساس نہ کیے جانے کی سزا ہمیں اپنا ایک بازو کٹوا کے مل چکی ہے مگر ہم پھر بھی سمجھ نہیں پائے ۔ایک مضبوط سیاسی حکومت کو جدید دور میں پرانے طریقے سے فارغ نہیں کیا گیابلکہ عدالتی کاروائی سے گھر بجھوایا گیا۔ اور میڈیا میں یہ خبریں مہینوں پہلے سے چلوائی گئیں کہ جس دن نواز شریف کو سزا ہو گی ۔اسی دن پارٹی ٹوٹ جائیگی ۔مسلم لیگ نون کا بٹوارا ہوجائیگا۔ شہباز شریف اپنے بھائی کیخلاف محاذ کھڑا کر لے گا تخت کیلئے بھائی بھائی کے سامنے کھڑا ہوجائیگا ۔مگر ہمیشہ کی طرح ہوشیارٟچوکس ٟفوکس اور شکاری کی طرح اندھیرے میں دور تک دیکھ لینے والے میاں شہباز شریف نے سب تجزیہ کاروں کی حکمت عملیوں کو الٹ دیا ۔نواز شریف کا کارواں جب پنڈی سے نکلا تو وہی مایوس اینکر رو رو کہ گلا پھاڑ پھاڑ کے واویلہ کر رہے تھے کہ نوازشریف اور حمزہ شہباز میاں صاحب کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے ۔انہوں نے اپنی راہیں جدا کر لی ہیں ۔شہباز شریف اور پرویز خٹک میں یہ فرق ہے کہ جب عمران خان نے اسلام بند کرنے کا اعلان کیا تھا تو خان صاحب کی آواز پہ پرویز خٹک اپنی مسلح پولیس فورس لے کے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا تھا ۔اگر مرکز بروقت کاروائی کر کے انہیں نہ روکتا تو یقینا حالات بہت خراب ہو سکتے تھے ۔مگر شہباز شریف ایک ہمیشہ مرد بحران کا کردار ادا کیا ہے ۔وہ کیسے اپنے فرائض سے پہلو تہی کرسکتا تھا ۔ٹی وی اینکرز اپنا منجن بیچتے رہے اور میاں شہباز شریف اپنے حکومتی امور پہ توجہ دیتے رہے ۔انہیں پتہ تھا کہ جب میاں نواز شریف لاہور پہنچے گا تو اسکے ساتھ کتنی تعداد میں عوام کا سمندر ہوگا اس لیے شہبازشریف نے سیاست کو عبادت سمجھ کے اپنے عوام کے تحفظ کیلئے مسلسل کام کرنے کو ترجیع دی ۔لاہور شہر کے گرد حفاظتی حصار کو مضبوط سے مضبوط کرتے رہے ۔یہ انکی اپنی ٹیم پہ گرفت اور کمان کی مضبوطی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انہوں نے عوام کے تحفظ کیلئے فول پورف سیکیورٹی پلان ترتیب دیا تھا پنجاب میں جس تیز رفتاری سے ترقیاتی منصوبے مکمل ہورہے ہیں ۔میاں شہباز شریف کی ان صلاحیتوں کو اپنے بیگانے سبھی مان رہے ہیں ۔مگر شہباز شریف نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی قابل قدر ہے ۔انہوں نے ملک میں سیاسی ماحول خراب ہونے سے بچانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب پھر سے کیس عدالتوں میں چلے گا۔ دیکھنا ہے کہ ہماری معزز عدالتیں صرف نواز شریف اور ان کی فیملی پہ ہی توجہ مرکوز رکھتی ہیں ۔یا جن کی جائیدا دیں ضبطی کے احکامات جاری کیے ہوئے ہیں انکے بارے میںبھی کوئی فیصلہ آتا ہے ۔جو خود کو گھر بیٹھ کے ہی صاد ق و امین کے سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں۔کیا انکے بارے میں بھی سوچا جائے گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024