کیسے ممکن ہے ”32 ارب“ کی ادائیگیاں ان کو جنہوں نے پاور ہاﺅس چلایا اور نہ ہی بجلی پیدا کی حتیٰ کہ ایک یونٹ بھی نہیں ”11 پاور ہاﺅسز تھے۔ ناں اس لئے موضوع تعداد نہیں۔ 11 میں ایک اتنا قریبی تعلق ہے کہ بل مانگے نہ ہی رسیدیں ہم تعلق سے ہٹ کر ایک تقریر سوچ رہے ہیں۔ کیا؟ بعد میں بتائیں گے پہلے سنو چند دن پہلے شاندار گھر+ آفس میں سونے کی اشرفیاں بانٹی گئی تھیں 10 کروڑ سے زائد رقم ۔ کوئی خاص خوشی؟ وہی جس خوشی میں سرکلر ڈیٹ کی رقوماتی ترسیل رواں دواں ہے جانب دوستاں۔ غلط بات۔ صرف ایک کلاس ہمیشہ کٹہرے میں کیوں؟ عوام بھی برابر گنگا جل لے رہی ہے۔ 6 کروڑ مالیت کی 30 نئی گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں۔ فیصلہ کرنے والوں تک 23 ارب 39 کروڑ ڈالر کے ریکارڈ توڑ تجارتی خسارے کی خبر نہیں پہنچی۔ شاید نہیں، قواعد نرم کر کے ضمنی گرانٹ سے رقم جاری ہو گی۔ ہوگی کیا؟ شاید ہو چکی ہے۔ یہ لوڈشیڈنگ تھوڑی ہے کہ اگلی باری تک م¶خر کر دیا جائے۔ لوڈشیڈنگ تو کب کی ختم ہوچکی۔ جناب کیا خود کو ”جنت نشین“ خیال کئے بیٹھے ہیں۔ ہاں تو جھوٹ نہیں بول رہے۔ جھوٹ تو ”وزارت“ بھی نہیں بولتی مگر۔ گرمیوں میں ”16 گھنٹے دورانیہ کی لوڈشیڈنگ کا پلان منظور ہو چکا ہے۔ اس مرتبہ تو رمضان المبارک کی گارنٹی نہیں۔ 3 گھنٹے سے زائد ہو گئے یہاں بیٹھے ہوئے ایک منٹ بھی پنکھا بند نہیں ہوا۔ ”محترم عالی“ یو پی ایس چل رہا ہے۔ واقعی تو کیا صرف آپ اور حکومت سچ بولتے ہیں۔ نہیں بس چھٹی حِس خبردار کر رہی تھی کہ بغض حکومت ہے زور بیان میں چلیئے سچ مان لیا تو بتائیے قانون نام کی کوئی جنس موجود ہے کوئی پرسان حال نہیں۔ اس قدر بے حسی، غفلت کہ چیخ بھی گلے میں اٹک جائے۔ اتنی تکرار کہ جھوٹ ہی سچ دکھائی دے۔ پہلے سے نافذ قوانین کے متعلق سچ زیرو۔ ہاں عوام کے ساتھ صف باندھے ”اعلیٰ عدلیہ“ کا فرمان ضرور پڑھا کہ ”پانامہ فیصلہ صدیوں تک ملک کا قانون رہے گا۔ خوشی کا مقام ہے مگر، مگر کیا؟ شاید ڈان لیکس کی طرح؟ لگتا ہے میڈیائی دانشوری کی چمک دہلیز تک آ پہنچی ہے۔ اسی لئے ناقص علم کا ڈھابہ سجا کر بیٹھے ہو۔ علم سے یاد آیا ”عمران خان“ فرما رہے تھے کہ ”سوا دو کروڑ“ بچے سکول نہیں جاتے۔ یہ اب معلوم پڑا جب متوقع انتخابی ان کی تیاریاں ہیں۔ بھئی اچھی بات پر منہ سے خیر کے کلمات نکالنا سیکھو، جو تعلیمی بجٹ 39 ارب کر دیا۔ یہ خبر چھُپا کر محض بغض عمران۔ اچھی خبر ہماری جیب میں پڑی ہے۔ ” پنجاب“ میں 40 ارب لاگت سے 2 لاکھ 52 ہزار سکولز میں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے علاوہ 2 لاکھ 20 ہزار اساتذہ بھرتی کئے گئے۔ الیکشن کے لئے؟ دوبارہ شک والی بات۔ اساتذہ کا الیکشن سے کام کیا۔ معذرت ان کا کام تو پچھلے الیکشن سے بھی نہیں تھا۔ انکشاف کر رہے ہیں یا سچ کی رہنمائی انکشاف سے یاد آیا۔ ”سندھ اسمبلی“ 9 ارکان گھر بیٹھے تنخواہ مراعات لیتے رہے۔ اس طرچ کہ بغیر اطلاع غیر حاضری کے 40 دن کا کوٹہ بھی برابر کر چکے ہیں۔ نہ آنے سے جو پٹرول کی بچت ہوئی اس کی تعریف ہی نہیں ہماری تعریف کیا قدر۔ یہاں تو ”وزیراعظم“ نے کہہ ڈالا کہ سندھ حکومت نے عوام کو مایوس کر دیا۔ وہ تقریر والی بات گول کر دی۔ گول ہو نہیں سکتی۔ اُس کی چمکار نے ہر طرف خوشحالی کے پھریرے لہرا رکھے ہیں۔ اب بتا بھی چکو۔ یاد کرو دو ماہ پہلے بیان تھا کہ ہماری کوششوں سے مُلکی اقتصادی منظر یکسر بدل گیا۔ تو شک کیوں؟ مخاطب سمندر سے گہرے تاجر تھے۔ وہ ہم تجارتی لوگ۔ ہم پیشہ، ہر دو میں غریب تو کوئی نہیں۔ غریب تو وہ ہیں جن کی تنخواہوں میں 200 فیصد اضافہ ہونے جا رہا ہے۔ عجیب سا کھیل ہے جن سے خوش نہیں۔ مراعات اُسی کے اکا¶نٹ میں منتقل ہوتی ہیں۔ خوش تو حکومت عوام سے بھی ہے۔ بقول ”وزیراعظم“ لوگوں کا درد رکھنے والی ہی اصل حکومت ہوتی ہے۔ عوامی طاقت سے حالات بدلیں گے۔ عوامی طاقت کتنی موثر ہے ذرا دل تھام کر سنو۔ دو دن پہلے ایک ماں نے دو بچے قتل کر کے خودکشی کر لی۔ اس سے پہلے 3 خواتین موت کو گلے لگا چُکی تھیں۔ ذاتی فعل کا متذکرہ بات سے کیا تعلق؟ ایسا ویسا تعلق۔ ایک ہفتہ میں اشیائے خوردنی کی قیمتیں 28" فیصد“ تک بڑھ گئیں۔ منافع خور مافیا کی کارستانی حکومت کا جرم کیوں بنا رہے ہیں؟ حکومت تو فلاحِ عامہ خاطر ہر میدان میں سرگرم۔ بہتری، ترقی واسطے کوشاں ہے آئے روز دورے، سرمایہ داروں سے ملاقاتیں، معاہدے، اتنی شبانہ روز محنت پر ہمیشہ دو حرف بول کر پانی پھیر دیتے ہو۔ پچھلے ہفتہ ہدایت تھی کہ سرمایہ کاروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔
نہ ہم محنت پر حرف بھیجنے کے شائق ہیں اور نہ ہی خدمات کا اعتراف کرنے میں سُبکی۔ ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ ہمارا موقف ہے جس عوام نے اشیاءخریدنی ہیں اُن کی آسانیوں کا خیال کون رکھے گا۔ جس ہفتہ ہدایت فرمائی، اُسی ہفتہ میں ”اقتصادی منظر“ کو شرماتے واقعات میں اضافہ ہوا۔ محض ایک ٹی وی قسط نہ ہونے پر اتنا تشدد کہ ”شہری“ کی خود سوزی۔ اُسی شہر اقبال میں 3 افراد نے خودکشی کر کے بدلتے منظر میں چار رنگ لگا دیئے تھے۔ ”اقتصادی منظر“ اتنا پھیلا کہ شہر بھر کا پانی پی گیا۔ شہر اقتدار کے لوگوں نے مارے خوشی کے ”میتوں“ کو منرل واٹر سے غسل دیا۔ جن کے قرض سے سلطنت کی معاشی سانسیں چل رہی ہیں۔ اُن کا باضابطہ موقف، قوم کا درد رکھنے والی ہی اصل حکومت ہوتی ہے۔ ”پر بطور تصدیقی دستخط دیکھو۔ قرض لینے کے حکومتی فیصلہ سے مہنگائی بڑھے گی۔ اصل خوراک میسر ہے نہ دوائی۔ ہر جگہ قبضہ، ملاوٹ، طمع کے دھندے کا راج ہے۔ طاقتور غالب ہیں۔ امیر امیر ترین اور غریب غربت کی انتہائی نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ شاید ”ریاستی ڈکشنری“ میں عوامی طاقت کی تشریح، تفسیر، معنی یہی ہو۔ امیر سے ایک رپورٹ نظروں میں گھوم گئی۔ جن الیکشن کو دھاندلی دھاندلی کہتے زبانیں نہ تھکتی تھیں وہ بھی عروج پر پہنچ گئے۔ پہلے سے امیر طبقہ کو دھاندلی کا آسیب بھی متاثر نہیں کر سکا۔ شاید منظر کے بیان کے ساتھ منسلک یہی حقائق کشا دستاویز تھی۔ سُنا ہے ”وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف“ دُکھی فریاد۔ عوامی فلاح کی ہر اپیل پر فوری نوٹس لے لیتے ہیں۔ شک ہے کیا؟ اگر ہے تو یقیناً نوٹس رفع کر دے گا۔ لکھئے گو ”فوڈ اتھارٹی“ بہت فعال ہے مگر ملاوٹ اتنی ہے۔ 2 نمبر خوراک کی تیاری عروج پر ہے۔ تمام چھوٹے، بڑے ہوٹل، ڈھابے مُبرا نہیں۔ استعمال شدہ گھی، آئل کے بار بار استعمال سے کینسر جیسی بیماری عروج پکڑ رہی ہے۔ ”پنجاب سپیڈ“ جیسی نیک ارادی، عمل کی ضرورت ہے دوسری طرف ”منی لینڈنگ ایکٹ کے باوجود شہر لاہور سود خوروں کے چنگل میں پھنس چکا ہے۔ مزید برآں ”ہسپتالوں“ کے فضلے نے شہربھر بلکہ پورے صوبے میں جان لیوا بیماریاں بڑھا دی ہیں۔ اس تصویر کے ساتھ مختصراً مسائل لکھ رہے ہیں کہ آس ہے اور حل ہونے کی توقع زیادہ ہے۔ یقیناً منظر بدل رہا ہے تاریخ کے پیچیدہ دور پر کوڑے پاکستان منتظر ہے کہ بلاوجہ تنازعات سے گریز کر کے قیادت عوام کی حالت بدلنے میں سرگرم ہو۔ وقت گو بہت دشوار سہی۔ خطرات انگنت مگر اداروں کی یکجائی اور حکومتی قوت ناقدہ کے آگے کچھ نہیں۔ سونے پر سہاگہ ”اعلیٰ عدلیہ“ عوامی شنوائی کے معاملات میں بے حد فعال، مستعد، یکسو ہے قومی تقاضوں، عوامی امنگوں سے ہم آہنگ یقیناً بہت کچھ صدیوں تک یاد رہے گا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024