مذہب کا صحیح استعمال رحمت اور غلط استعمال زحمت ہے عقیدہ کی بنیاد اگر عقل ہو تو دینی فطرت اور اگر عقیدہ کی بنیاد اندھی عقیدت پر تو ذلت و نکبت۔ حضرت عیسیٰؑ نے 30 سال کی عمر میں اعلان روحانیت و نبوت کیا۔ تیس سال یہودی علماءکی دین فروشی اور سلطنت روما کے حکمرانوں کی مالی بدعنوانیوں کے خلاف اعلان بغاوت کیا اور 33 سال کی عمر میں ظاہری زندگی کو خیر آبادکیا۔ انہیں شادی کا وقت ہی میسر نہ ہوا۔ ان کی پیروی میں رومن کیتھولک عیسائیوں میں راہب پیدا ہوئے اور زندگی بھرمجرد زندگی گزاری۔ حضرت مریم کنواری تھیں ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عیسائی پادریوںاور راہبوں نے ایسی تعلیم دی کہ کئی عیسائی خواتین نے سفید لباس زیب تن کیا اور شادی کی رسم ترک کر کے ”راہبہ“ کی زندگی گزاری۔ جنس کو گناہ تصور کیا اور مجرد زندگی کو سنت عیسیٰؑ قرار دیا۔ عیسائی مصلح ماٹر لوتھر نے پروٹسٹنٹ فرقہ کی بنیادرکھی اور عیسائیت سے کئی رسوم کے خلاف اعلان جنگ کیا (NON) کوزندگی کے دھارے میں لانے کے لئے خانقاہیت کی رسم کو رد کر دیا راہب اور راہبہ کی اس طرح کی زندگی کو غیر فطری‘ غیر عقلی غیر انسانی اور غیر مسیحی گردانا۔ اسی طرح ہندومت میں جب کسی عورت کا خاوند مر جاتا تو اس بیوہ کو مردہ شوہر کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا۔ اس غیر انسانی رسم کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن مقام حیرت ہے کہ تاریخ میں مذہب کے نام پر ایسی ظالمانہ اور بہیمانہ رسومات رہیں کہ عہد حاضر کے روشن فکر اور انسان دوست لوگ مذہب سے بے زارہو چکے ہیں ایسے غیر انسانی عقائد کو دیکھ کر کارل مارکس نے مذہب کو افیون قرار دے دیا تھا روزنامہ نوائے وقت 26 اگست 2017ءمیں خبر چھپی ہے کہ بھارت کی ریاست ہریانہ میں ایک سکھ مذہبی رہنما گرومیت رام رحیم نے اپنی عقیدت مند دو خواتین کے ساتھ زبردستی زیادتی کی اور اپنے چار سو مریدوں کے جنسی اعضاءکٹوا ڈالے تھے۔ تاکہ وہ قرب خدا حاصل کریں۔ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں روحانیت اور مذہب کے نام پر جو اندھیر نگری ہے اس نے تعلیم یافتہ طبقے کو ولایت و روحانیت اور مذہب سے نالاں کردیا ہے فریب کار ہر مذہب میں گھات لگائے بیٹھے ہیں مگراسلام نے انسانی اور غیر عقلی عقیدے کی نفی کردی ہے۔
سورہ لقمان کی آیت نمبر 8 میں ارشاد ربانی ہے ”بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے ان کے لئے نعمتوں کی جنتیں ہیں“ گویا ایمان و عمل لازم و ملزوم ہیں حصول جنت کے لئے۔ صرف عقائد سے جنت یا نجات اخروی نہیں ملتی۔ ایک بیدار مغز اور روشن فکر دانشور نے استفسار کیا کہ عبادات اور اعمال میں کیا فرق ہے۔ میں نے عرض کیا کہ سوالات کرنا معاملات کے حقائق کو جاننا ہے۔ سوالات ترقی پسندی کا زینہ و قرینہ ہیں فلسفی سوالات کو خوش آمدید کہتا ہے جبکہ مذہبی رجعت پرست سوالات کو کفر سے تعبیر کرتا ہے اسلام کے سوا دیگر مذہب عالم میں عقل و استدلال اور دانش و پیش کی نفی کی گئی یہی وجہ ہے کہ انگلستان کے مشہور فلسفی برٹرینڈ رسل کو ”میں عیسائی کیوں نہیں ہوں“ لکھنی پڑی جس میں اس نے ابطال عیسائیت اس بنیاد پر کیا کہ انجیل میں مکاشفات اور معجزات ہیں اور عقل و خردکی کوئی بات نہیں جو انسانیت کے لئے لائحہ عمل یا مشعل راہ ہو۔ مگر ابن طفیل ، ابن رشد اور بو علی سینا جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ہارون الرشید اور مامون الرشید کے زمانہ میں مذہبی اور علمی مباحث ہوتے تھے۔ یہ ایمان بالغیب کی تاویل یہ کرتے کہ سمعنا و صدقنا۔ ہم نے سنااور تصدیق کی۔ وہ معزلہ دین کے ہر حکم کو مبنی برعقل گردانتے اور ہر حکم کی عقلی دلیل دیتے۔ آج بھی مسلمانوں میں”علم الکلام“ پر دسترس رکھنے والے مفکرین بہت کم ہیں۔ بات چلتی تھی عبادات اور اعمال کے بارے میں استفسار کے حوالے سے۔ سوال کی حقانیت اور دلیل کی عظمت بیان اس لئے کی کہ ”اجتہاد“ بغیر استفسار ممکن نہیں۔ عبادات جادہ ہیں منزل نہیں۔ منزل اعمال صالح ہیں۔ عبادات و اعمال میں چار حالتیں ہیں اول ایک آدمی عبادات کرتا ہے اور اعمال صالح بھی بجا لاتا ہے دوم۔ عبادات کرتا ہے لیکن اعمال صالحہ بجا نہیں لاتا۔ یعنی عابد ہے عامل نہیں۔ سوم۔ اعمال صالحہ بجالاتا ہے لیکن عبادت گزار نہیں۔ چہارم نہ عابد ہے نہ عامل ہے ایسی صورت میں عامر و عامل ہی قرب خدا حاصل کر سکتا ہے بعض لو گ خدمت خلق کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں لیکن وہ عبادت خدا یعنی حقوق اﷲ بجا نہیں لاتے یا تو وہ کاہلی برتتے ہیں یعنی گناہ گار ہیں یا د مہریہ ہیں اور خدا کی ذات کے منکر ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے ”بے شک نماز تمہیں فحاشی اور منکرات سے بچاتی ہے“ گویا نماز ذریعہ ہے اعمال صالحہ کا۔ جو نمازکاپابند نہیں اس کا ایمان ناقص ہے۔ روزہ کے بارے میں حکم قرآن ہے ”اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے پہلی قوموں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جا¶“ گویا روزہ رکھنے کا مقصد پرہیز گاری ہے جسے تقویٰ کہتے ہیں اگر نمازی‘ حاجی اور روزہ دار متقی نہیں تو عبادات لا حاصل۔ اعمال صالحہ اصلاح نفس اور فلاح معاشرہ کے ضامن ہیں میں کئی ایسے پابند صوم و صلوةٰ لوگوں کو جانتا ہوں جو رشوت خور ہیں ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ یتیموں‘ مسکینوں اور رشتہ داروں کی جائیداد پر قابض ہیں عظیم ہیں وہ لوگ جو حقوق اﷲ اور حقوق العباد ادا کرتے ہیں یہی لوگ فخر انسانیت ہیں۔
اہل علم اور اہل ایمان دو علیحدہ علیحدہ حیثیتیں ہیں۔ علم کی کئی اقسام ہیں۔ طبعی علوم اور غیر طبعی علوم‘ نفس و آفاق کی حقیقتوں کا ادراک زمرہ علم میں آتا ہے۔ علم جاننے کے عمل کو کہتے ہیں اور معرفت پہچاننے کی منزل ہے۔ سائنسدان بھی عالم ہے کیونکہ وہ حقائق کائنات کے ادراک کی جستجو میں رہتا ہے۔ اہل ایمان مذہبی و روحانی افراد کو کہتے ہیں اگر ایمان باالجہل ہو تو وہ توہمات و رسومات کا شاخسانہ ہے۔ قدیم یونانی دیوتا¶ں اور دیویوں کی پرستش کرتے تھے اور اپنے ایمان و اعتقاد کے لئے کوئی عقلی دلیل نہ رکھتے تھے اسی طرح ہندو مت کہانیوں اور قصوں کا مذہب ہے۔ دیویوں کی پرستش جاری ہے اور خوف توہمات طاری ہے۔ ایمان باالغیب کا مطلب ایمان باالجہل نہیں۔ ایمان کی بھی کئی منازل ہیں۔ جتنا علم و ادراک بڑھتا جائے گا اتنا ایمان بڑھتا جائے گا۔ اہل علم کو عالم‘ اہل ایمان کو مومن اور اہل معرفت کو عارف کہتے ہیں۔ علم و ایمان کا یکساں ہونا معراج معرفت ہے۔ سورة الروم کی آیت نمبر 56 میں ارشاد ربانی ہے ”اوتوالعلم و الایمان“۔ جنہیں علم اور ایمان عطا کیا گیا۔ ارباب علم و ایمان کا تذکرہ بندگان خدا کے طورپر کیا گیا۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں اگر صاحب علم صاحب ایمان نہ ہو تو وہ عارف بااللہ نہیں ہوتا اور اگر صاحب ایمان صاحب علم نہ ہو تو وہ بھی محروم معرفت و حقیقت ہوتا ہے۔ حضرت داتا گنج بخش اپنی تصنیف ”کشف المحجوب“ میں مقام ولایت کے لئے علم کو ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں جاہل انسان ولی اللہ‘ سالک اور عارف نہیں ہوتا۔ میری رائے میں مجذوب اور قلندر کو استثناءحاصل ہے۔ ہر ذی ہوش کا پابند شریعت ہونا لازمی ہے۔ امام غزالی نے شریعت و طریقت کے ملاپ کو حقیقت گردانا ہے۔ قرآن مجید میں ذکر اللہ اور عبادت الہیٰ کا بڑا مقام بیان کیا گیا ہے۔ علم کی اہمیت و فضیلت کا بھی بار بار ذکر درج ہے۔ فرمایا ”کیا صاحبان علم اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں“۔ ایک مقام پر ارشاد ربانی ہے ”اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے“۔ قرآن مجید کو سورہ یسٰین میں ”ذکر“ کہا گیا۔ جو لوگ اہل ذکر ہیں وہ ”راسخون فی العلم“ ہیں۔ ان قرآنی اصطلاحات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایمان باالعلم جسے ایمان باالعقل بھی کہا گیا بنیاد دین اسلام ہے۔ اسلام میں جہالت کی کوئی گنجائش نہیں۔ قرآنی اور سائنسی تعلیم کو عام کیا جائے۔ دین و دنیا کی دوئی کو ختم کیا جائے۔ مذہبی مدرسوں میں سائنس اور عقلی تعلیم ناپید ہے‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مذہبی اور روحانی علوم کا عمل دخل نہیں۔ ایسا نظام تعلیم مرتب کیا جائے کہ دونوں علوم پڑھائے جائیں۔