مجھے یہ یقین نہیں آ رہا کہ آج مڈستمبر کی کوئی تاریخ ہے یا فسٹ اپریل فول ہے۔ جھورا جہاز ابھی میرے پاس یہ دو خبریں لے کر آیا تب سے ہی مجھے اپنی سماعت پہ شک ہونے لگا ۔میرے تجسس اور خوشی کا یہ عالم ہے کہ میں ان دو خبروں کو قارئین نوائے وقت سے فوراً شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی خبر یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (پنجاب) نے اپنی کلاشنکوفوں کے منہ سفید گلابوں سے ڈھانپ دیئے ہیں(سفید پھول امن کی نشانی ہوتا ہے) ٹی ٹی پی نے اپنے سارے بارود، دستی بم اور بارودی سرنگوں کے عوض قلم اور کاپیاں کتابیں تبدیل کر لی ہیں۔ یہ سب ماننے کو دل چاہتا ہے مگر ’’یادماضی عذاب ہے یار ب‘‘ کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے 70ہزار سے زائد معصوم سویلین کو موت کی نیند سلا دیا، ان کو قتل کرکے ان کے سروں سے فٹ بال کھیلا گیا۔ گیارہ ہزار فرض شناس فوجی جوانوں، آفیسروں کا بے رحمانہ قتل کیا گیا، کئی دلہنوں کو بیوگی کا کفن پہنایا ،کئی بہنوں سے ان کے بھائی ،مائوں سے ان کے بیٹے چھین لیے گئے، سینکڑوں باپ اپنے جوان بیٹوں کے لاشے اپنے کندھوں پر اٹھا کر جنازہ گاہ پہنچے اور لاکھوں سویلین و عسکری جوان ہمیشہ کے لیے معذور بنا دیئے گئے، ہزاروں خواب چکنا چور کر دیئے گئے، کھربوںروپے کے ملکی وسائل پل،سڑکیں، عمارتیں، جنگی طیارے تباہ کر دیئے گئے۔ میرے وطن کے کارخانے، فیکٹریاں، بند اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری رک گئی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ روپے پیسے کا کوئی وطن نہیں ہوتا، کوئی زبان ،کوئی رنگ ،کوئی مذہب ،کوئی مسلک نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ سابقہ حکمرانوں سمیت موجودہ حکمران بھی اپنی رقمیں ،اپنا سرمایہ اس بارودی ماحول سے نکال کر محفوظ مقام پر لے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ہمارے راہنمائوں کی دو سو ارب ڈالرز کی خطیر رقم پڑی ہے۔اور ہم ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف سے اسی پیسے کو بھاری سود ادا کرکے قرضے پر حاصل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہرنیا پیدا ہونے والا پاکستانی بچہ پیدا ہوتے ہی کم از کم ایک لاکھ روپے کا مقروض ہوتا ہے۔میرا وطن جو کہ دو قومی نظریئے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا کی مساجد، نمازیوں کی متلاشی ہیں ،مساجد و امام بارگاہوں میں بم پھٹنے سے نمازی ناپید ہیں، ہر طرف تو کافر وہ کافر سب کافر کا واویلا ہے، مجرم جیلوں سے چھڑا لئے جاتے ہیں۔ پچھلے 6سال سے سزائے موت کے منتظر ایک ہزار دہشت گرد اپنے انجام کو اس لیے نہیں پہنچ سکے کہ کمزور حکمران ڈرتے ہیں۔ آج ٹی ٹی پی کی طرف سے جاری اعلامیے کے بعد عوام پوچھتی ہے کہ ٹی ٹی پی نے وہ کونسا خون بہا قصاص دیت ہے جو ادا کیا ہے؟یا پھر ٹی ٹی پی نے کسی ڈیل کے تحت یا دبائو پر یہ بیان دیا ہے یا پھر شمالی وزیرستان مین فوجی آپریشن کے نتائج ہیں اور خوف ہے جس سے ڈر کر یہ بیان دیا گیا۔ عوام پوچھتے ہیں آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر ٹی ٹی پی کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا۔ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ 20کروڑ پاکستانی اس پہ یقین کر لیں کہ اب ٹی ٹی پی کی بندوقیں اور بم اور توپیں بارود کی بجائے تبلیغی لٹریچر اگلنے لگیں گی؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ایک طرف وزیرستان آپریشن و ڈرون حملوں نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ القاعدہ کی پوری عسکری قوت اور قیادت اب ایک نئے مشن ،نئے نام سے عراق اور شام میں وہاں کی حکومتوں سے برسرپیکار ہو گئی ہے اور اب افغانستان اور پاکستان کی بجائے عراق، شام، لیبیا اور لبنان وغیرہ تختہ مشق بنیں گے اور پھر سعودی عرب کی شدید خواہش ہے کہ پاک فوج کو متعلقہ ممالک میں اسلامک پیس فورس کے نام پر بھیجا جائے مگر اسکے لیے پہلے پاک فوج کو یہ تسلی کروائی جا رہی ہے کہ اندرون پاکستان اپنے طالبان مزاحمت قصہ پارینہ بن چکی یا پھر ہزاروں پاکستانیوں کے قاتلوں کو محفوظ راہ داری دینا مقصود ہے کہ وہ یہاں سے اٹھ کر نئے محاذ جنگ پر جا سکیں؟موجودہ حکمرانوں سے یہ بعید اس لیے نہیں کہ یہ تو پہلے بھی ان دہشت گردوں سے مذاکرات کے حامی تھے۔ ہزاروں انسانوں کے قاتلوں کے ساتھ مذاکرات کیوں؟ ان قاتلوں کو بگڑے بچے کہنا اور یہاں تک کہ شہید بھی کیا جانے لگا مگر پاک فوج کی طرف سے سخت شٹ اپ کال ملنے پر کھسیانی بلی بن گئے۔آج وہ ہی دہشت گرد گڑگڑا کر صلح کی بھیگ مانگ رہے ہیں اور کسی نئے منصوبے کے لیے تیاری اور پھر سے جڑ پکڑنے کے لیے وقت مانگ رہے ہیں۔ میں یہ کیسے یقین کر لوں کہ آج سے پانچ سال پہلے جن عوامل کی بناء پر میری فیملی،میرے بچوں کو جلاوطن ہونا پڑا تھا وہ حالات آج یکسر بدل گئے ہیں؟آج کی دوسری خبر اس قصے کی طرح ہے کہ ایک بچہ گائوں سے باہر جنگل کے قریب بکریاں چرانے جاتا تھا ایک دن اسے شرارت سوجھی اس نے گائوں کی طرف منہ کرکے چلانا شروع کر دیا کہ شیر آ گیا شیر آ گیا۔ لوگ مدد کو پہنچے تو وہاں کچھ نہ تھا، اس طرح کچھ دن مسلسل ہوتا رہا اور ایک دن واقعی شیر آ گیا مگر اس دن دیہاتی اسے مذاق سمجھ کر نہ پہنچے اور پھر وہی ہوا جو آپ اس وقت سوچ رہے ہیں۔ قارئین الطاف حسین بھائی اس سے پہلے بھی کم از کم آدھ درجن بار ’’لاڈ‘‘ دکھا چکے ہیں مگر پھر ’’مان‘‘ بھی جاتے ہیں۔ دراصل ایم کیو ایم کے قائد شدید ذہنی دبائو کا شکار ہیں۔ ایک طرف لندن پولیس نے اپنے شکنجے سخت کرنا شروع کر دیئے ہیں ، دوسری طرف دھرنوں کی ابتدائی حمایت اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سے راہ و رسم بڑھانے کی وجہ سے موجودہ حکمرانوں نے گرفتار شدہ دونوں افراد برطانوی پولیس کے حوالے کرنے کی دھمکی دے کر قائدالطاف حسین کو استعفیٰ واپس لینے پر مجبور کر دیا اور مولانا فضل الرحمن جو کہ الطاف بھائی کے سخت مخالف ہیں ،ایک دن لندن فون کرنے پر الطاف بھائی نے سارا میوزک ہی تبدیل کر دیا۔ دراصل الطاف بھائی کی مثال اس طرح ہے کہ انکی جان ایک بوتل میں بند ہے جس میں دو جن قید ہیں حکومت جب ڈھکنا کھولنے لگتی ہے موصوف فوراً مان جاتے ہیں۔ قارئین میں یہاں تک ہی اپنا کالم لکھ پایا ہوں کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے میران شاہ فوجی چوکی پر بیس راکٹ فائر کرکے تین عسکری جوانوں کو شہید کر دیا ہے، دراصل یہ صلح کی پہلی سلامی ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ اور یہ خبر بھی بریک ہو رہی ہے کہ الطاف بھائی نے حسب سابق کارکنوں کے پرزور اصرار پر قیادت سے دست برداری کا فیصلہ واپس لے لیا اور ساتھ ہی اپنے سندھ گورنمنٹ میں اتحادیوں کو پریشان کرنے کیلئے تقسیم سندھ کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ دراصل الطاف بھائی کی اپنی جماعت پر کمزور پڑتی گرفت ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ،منی لانڈرنگ کیس یہ سب کچھ ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرنے کیلئے کافی ہے۔ قارئین ان دو خبروں کے حوالے سے ملنے والی خوشیاں میرے لیے اور بیس کروڑ عوام کیلئے عارضی ثابت ہوئیں ہیں۔ اب دائمی خوشیوں کیلئے مجھے ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلاب فارمولے پر عمل ہونے کا انتظار کرنا پڑیگا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024