اداروں کی تذلیل کیوں؟
مطالعہ انسان کے لیے بہت مفید چیز ہے۔ مطالعہ کرنے سے انسان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں روزانہ اخبار کا مطالعہ کرتا ہوں۔ آج کی ایک خبر پڑھی کہ الیکشن کمیشن نے حکم دیا ہے کہ عمران خان کو کو گرفتار کرکے پیش کیا جائے ۔ الیکشن کمیشن نے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کا فیصلہ 3-2 سے دیا۔ الیکشن کمیشن کے پنجاب اور سندھ کے ارکان نے وارنٹ کی مخالف کی تاہم چیف الیکشن کمشنر سمیت 3 ارکان نے وارنٹ جاری کرنے کا حکم دیا۔
حسب روایت تحریک انصاف نے بھی وہی ردعمل دیا جو اکثر لوگ اپنے خلاف فیصلہ آنے پر دیتے ہیں۔ تحریک انصاف نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ کہ عمران خان کے وارنٹ گرفتاری اسلام آبادہائیکورٹ کے فل بنچ میں چیلنج کریں گے کیونکہ الیکشن کمیشن کے نشانے پر صرف ایک پارٹی تحریک انصاف اور ایک سیاسی رہنما عمران خان ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ وہ عمران خان کو گرفتار کرواکراپنے سامنے پیش کروائے ۔عمران خان نے ایسا کیا کیا جو توہین عدلت کا قانون لاگو ہو؟کوئی ہمارے ملک کے ان سیاستدانوںسے پوچھے کہ کیا عدلیہ میں بیٹھے جج میرٹ کو پس پشت ڈال کر فیصلہ دے رہے ہیں؟ کیا ان کواپنے ملک کے ان معتبر اداروں پر اعتماد نہیں؟ کب تک ہم لوگ اپنے ہی اداروں کو دوسرے ملکوں میں رسواکریں گے؟ اگر کسی فرد کی نظر میں انصاف ہوتا دکھائی نہیںدے رہاتو وہ اپنے وکیل کے ذریعے عدلیہ کو مطمئن کرے نہ کہ ادارے کی تذلیل کرے۔
دوسری جانب خا ن صاحب نے بھی اپنا موقف دیتے ہوئے کہا ہے الیکشن کمیشن نے کبھی بھی کسی کی گرفتاری کے وارنٹ جاری نہیں کئے مجھے سمجھ نہیں آتی میں کس بات کی معافی مانگوں۔ حکومت گرفتار کرنا چاہتی ہے تو کرلے۔ نااہل ہونے کے باوجو د کرپٹ مافیا کو نہیں چھوڑونگا۔ یہ مجھے سپریم کورٹ یا الیکشن کمیشن سے نا اہل کروانا چاہتے ہیں۔ میرے اوپر نہ کرپشن ہے۔ نہ منی لانڈرنگ اور نہ میں نے اثاثے چھپائے۔ مجھے یہ کس بات پر نا اہل کرینگے۔اگر مجھے نا اہل کیا گیا تو سیاست ہی چھوڑ دوں گا۔ بقول خان صاحب الیکشن کمیشن نے الیکشن میں دھاندلی پر ایکشن نہیں لیا۔ الیکشن کمیشن بنتا ہی شفاف الیکشن کرانے کےلئے ہے۔ الیکشن کمیشن کے وارنٹ گرفتار ی جاری کرنے کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی۔
عمران خان، آصف زرداری ،نوازشریف سمیت تمام سیاستدانوںمیں کوئی فرق نہیں کیونکہ یہ لوگ اتنے بھلے مانس ہیں کہ انہیں خود معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا کیا اور کیوں کیا؟ عمران خان نے بھی وہ ہی کہہ دیا جو میاں صاحب کہتے آرہے ہیںکہ مجھے کیوں نکالا ؟
ایسے ہی عمران خان بھی پوچھنا شروع کردیاہے کہ میرا قصور کیا ہے ؟بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ خان صاحب نے تو ”تڑی“ بھی لگا دی کہ اگر مجھے نااہل قراردیا تو میں سیاست چھوڑ دوںگا۔ خان صاحب کو ان کے مشیر بتائیں کہ یہ تو ابتدائے عشق ہے ابھی سے میدان چھوڑنے کی باتیں کررہے ہو۔ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے مصداق دیکھتے جاو¿ کہ آگے آگے ہوتا ہے کیا؟
خان صاحب کو ایک مشورہ ہے کہ وہ اتنی جلد اور جذباتی فیصلہ نہ کیا کریں کیونکہ ابھی تو آپ نے کرسی کے نشے کا ذائقہ بھی نہیں چکھا تو نشے کا اندازہ کیسے لگاو¿ گے؟ اگرآپ کو یہ لوگ نااہل کروا بھی دیں تو آپ اگلا الیکشن لڑیں اور اپنی پارٹی کو الیکشن جتوائیں اور پھر اقتدار میں آکر میاں صاحب کی طرح اپنے راستے ہموار کروا لیں۔ اپنی مرضی کے بل پاس کروا کر بے شک خود وزیراعظم بن جائیں پھر نااہل نہیںہر چیز کے لیے اہل ہوجائیں ۔
آج کل سیاست کے میدان میں اداروں کی تذلیل کچھ زیادہ ہورہی ہے کہ کبھی عدلیہ پر تنقید تو کبھی الیکشن کمیشن پر، یہی نہیں بلکہ افواج پاکستان کو بھی ہدف نتقید بنانے سے گریز نہیں کیا جارہا ہے۔ باقی دوسروں محکموں کو ہر کوئی آزادی کے ساتھ برا بھلا کہہ جاتا ہے ۔ خدارا کچھ تو سوچیں کیا ہمارے ملک کے ادارے اتنے کمزور اور بے بس ہیں کہ جس کا دل چاہے وہ ان کو ہدف تنقید بناڈالیں؟
ادارہ کوئی برا نہیں ہوتا بلکہ ادارے میں چند کالی بھیڑیں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ادارہ بدنام ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی فوج اور عدلیہ کے بارے میں کہنے والے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں اور پھر ان اداروں پر تنقید کریں۔ یہ فوج ہی جس کی وجہ سے تم جیسے لوگ حکمران بنتے ہیں ورنہ اپنی حیثیت بیرون ممالک میں دیکھیں جہا ں سڑکوں پر پروٹوکول تو دور کی بات ٹیکسی میں سفر کرتے نظر آتے ہو۔
خدارا جس مملکت نے تمہیںسر ماتھے پر بیٹھایا اس پر تنقید کرکے اپنے ملک کو دوسروں کے سامنے رسوا نہ کریں۔ ہم آج جو کچھ بھی ہیں اس مملکت کی وجہ سے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے کی توفیق دے۔ آمین