قارئین! کون نہیں جانتا جشن آزادی کی خوشیاں 14 اگست کے دن اپنے نقطہ عروج پر ہوتی ہیں، تمام ہم وطنوں کے جذبات مُنہ زور ہوتے ہیں۔ فنِ تقریر و تحریر ارتقاءمیں ہے‘ ٹی وی ریڈیو پل پل یوم آزادی سے ہم آہنگ پروگرام پیش کرتے ہیں‘ جھنڈیاں ڈھل رہی ہیں جھنڈوں پر چاند ستارے کی کشیدہ کاری خوب دیدہ زیب ہے بلکہ یوں سمجھئے تمام پاکستانی خود کو براہِ راست چاند ستاروں کے درمیان اُڑتا ہوا محسوس کرتے ہیں اور کیوں نہ کریں موقعہ ہی اتنی بڑی خوشی کا ہے‘ اتنی بے پناہ خوشی کہ سب سے فرداً فرداً سنبھالنی مشکل ہوتی ہے لہٰذا سب مل کر اُسے منانے میں لگے ہوتے ہیں یہ الگ بات کہ اس اجتماعی کوشش کے باوجود بھی ہر انسان کا خوشی منانے کا اپنا اپنا الگ انداز ہوتا ہے الگ طریقہ ہوتا ہے مثلاً پچھلے سال آپکو یاد ہوگا راولپنڈی کے ایک ایس ایچ او نے اپنے اختیارات سے بے اختیار ہوکر یہ خوشی پاکستان کے پرچموں‘ جھنڈیوں اور قائداعظمؒ کی تصاویر والے سٹالز کو پاﺅں کی ٹھوکروں سے اُڑا کر منائی۔ سنا ہے وہ بھوک سے نڈھال مگر آزادی کی خوشی سے بے حال مفلس مگر مخلص سٹال والوں کو اُس جگہ سے اُٹھانا چاہتا تھا کہ کسی دوسری جگہ جاکر لگاﺅ گویا انکو اس مٹی سے اٹھانا چاہا جس کے ذرے ذرے میں اُنکے بڑوں کا خون جذب تھا یہ پڑھ کر صرف میرا ہی نہیں بہت سوں کا کلیجہ شق ہوا ہوگا جو کہ آزادی کے ایک ایک سانس کی قیمت اور تول جانتے ہونگے مگر یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے چند سال قبل جشن آزادی کا موقعہ نہ ہونے کے باوجود پنجاب اسمبلی کے ارکان نے بھی قائداعظمؒ کی تصویر زمین پر پھینک کر یہ خوشی منائی تھی دراصل اس واقعے میں بھی سارا قصور ایس ایچ او کا نہیں ہے قصور خود قائداعظمؒ کا بھی ہے جس نے اپنے بیمار رُت جگوں اور گلے ہوئے پھیپھڑوں کا دَرد پی کر دن رات محنت کرکے انگریزوں اور ہندوﺅں کے پاﺅں تلے سے زمین کھینچ کر ایس ایچ او کے قدموں تلے دے دی کہ یہ تمہاری ہے اس کو روندو۔ کیا کیا جائے کہ صرف ایس ایچ او ہی نہیں تمام قوم ہی اپنے اپنے طریقے سے محسن قوم کو عملی طور پر خراج تحسین پیش کرتی ہے اور حسبِ توفیق جشن آزادی میں اپنا اپنا ”وَنڈا“ ڈال رہی ہے اے این پی والے اُجلے دل و دماغ والے ہیں پاکیزہ سفید نیت رکھتے ہیں وہ کالاباغ ڈیم بنانے کی مخالفت کرکے قائد کی قوم کو بوند بوند پانی کیلئے ترسا کر جشن آزادی منایا کرتے ہیں۔ محکمہ صحت والے پینے کے پانی میں گٹر کا پانی مل جانے اور اس میں سفید اور سرخ کیڑے نکلنے کے باوجود اُسے OK کرکے جشن آزادی میں ایمانداری سے شامل ہیں اگر ہیضے اور کالے یرقان سے درجنوں اموات ہورہی ہیں یا سینکڑوں لوگ ہسپتالوں کے لانوں میں پڑے ہیں تو اس میں اُن کا کیا قصور ہے ان بدقسمتوں کی قسمت میں یومِ آزادی کی خوشی ہی نہیں لکھی گئی تھی۔ وہ سمجھتے ہیں ایسے کیس خاندانی منصوبہ بندی اور نمبردو دوائیاں ڈھالنے والوں کے ہیں۔ اسی طرح تعلیم کی وزارت بھی اپنی جگہ پر مطمئن ہے وہ جشن آزادی میں شمولیت کیلئے جھنڈیاں بنوا کر بچوں سے تقریریں کروا کر اور سکولوں کالجوں کی مُنڈیروں پر قطار اندر قطار چراغ رکھوا کر نہال ہے اُسے معلوم ہے اُسکے پاس یہ کریڈٹ موجود ہے کہ اُس نے کس طرح پچھلے ساٹھ سال سے تعلیمی تناسب اور تعلیمی معیار کو ایک جگہ پر جامد کررکھا ہے وہ انگریز بہادر کی وضع کردہ تعلیمی پالیسیوں سے کیوں انحراف و تجاوز کرے جو ایسا نصاب بناگئے جس سے طالب علموں کو اپنی کردار سازی اور عملی زندگی میں اُس پر عمل پیرا ہونے کا موقعہ ہی نہ ملے۔ ایک ہی دیوار کے آرپار دو سکولوں میں زمین آسمان کا فر ق ہے انگریزی کی پہلی جماعت کی فیس 8 ہزار روپے جبکہ قومی زبان میں میٹرک کی فیس پچاس روپے‘ انگریزی اخبار کی رَدی 12 روپے کلو، اُردو اخبار کی رَدی چار روپے کلو، امتحان اور طریقہ امتحان میں ایمانداری کا وہ عالم کہ اب امتحانی سنٹر بھی پولیس تھانوں کی طرح پہلے ہی سے بِک جاتے ہیں۔ اللہ اللہ آزادی کیا نصیب ہوئی پاکستانیوں کو ہر میدان میں آزادی بلکہ من مانی نصیب ہوگئی‘ امیری‘ غریبی کا فرق اگر اس جشن آزادی کے موقعہ پر نکالئے تو سڑسٹھ سال بعد بھی محل اور محلے کا فرق موجود ہے سوکھی روٹی اور متنجن ایک ساتھ نِگلے جارہے ہیں، دین و مذہب کی بات کریں تو اس سلسلے میں اب نیا طریقہ وضع ہوا ہے مساجد میں نماز بھی اکثر پولیس کے پہرے میں ادا کی جاتی ہے ایسا غیر محفوظ ہونے کا احساس تو آزادی کی نعمت سے ملنے سے پہلے ہندوﺅں کے دور میں بھی نہ تھا آج ہر روز ہر جگہ دہشت گردی روزمرہ کا آرڈر بن چکی ہے آزادی کی نعمت سے خوب فائدہ اٹھایا گیا ہے آزاد وطن کا امن ناپید ہے جس مسجد سے نمازی بخیروعافیت نکل رہے ہوتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ اس بار جشنِ آزادی میں شریک ہیں تو انشااللہ اگلے سال بھی شریک ہوسکیں گے۔ اُدھر دہشت گردے کے اڈے چلانے والے اور لمحہ لمحہ مُخرب الاخلاق پروگرام پیش کرنیوالا میڈیا بھی جشن آزادی میں بھرپور حصہ لے رہا ہے آزادی کو آزادی کے معنوں میں برت رہا ہے۔ چند ماہ پہلے تہران کی ایک خبر کے مطابق عدالت نے9 عورتوں سے زیادتی کے ایک مجرم کو نو بار پھانسی کی سزا سنائی ہے جبکہ یہاں اکٹھے 9 عدد مجرموں کو ایک عدد بھی پھانسی کی سزا نہیں سنائی جاتی سزا دینا تو بہت بعید کی بات ہے۔ شاید وجہ یہ ہے حکم سنانے اور حکم سننے والے دونوں جلدی میں ہیں۔ انہوں نے جشن آزادی میں بھی شرکت کرنی ہوتی ہے آزادی کی نعمت سے لطف اندوز ہونیوالے کیا جانیں وطن عزیز کس طرح ہر ہر سطح پر تباہی کے کنارے پہنچ چکا ہے۔ سو جشن آزادی منانے والو سنو سب سے پہلے اپنے آزاد ملک کو رشوت‘ سفارش‘ ظلم و تشدد‘ دہشتگردی‘ بے ایمانی اور بدی بدکاری سے آزاد کرا¶‘ ہر لمحہ اس کی ترقی اور بقاءکیلئے تیار رہو پھر جشن آزادی بھی منا لینا تمہیں احساس نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کتنی بڑی نعمت عطا کر رکھی ہے مگر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ تم عملاً اللہ کی ناشکری نہ کرتے ہو ایسا نہ ہو کبھی اسکی پکڑ جکڑ میں جکڑے جا¶ جس کی پکڑ جکڑ رہائی ہی نہیں رکھتی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38