پاکستان میں ایک طرف گوادر میںکاروبارکا افتتاح ہوا تو دوسری طرف شاہ نورانی مزار پر دہشتگردی کا حملہ ہوا ہے جس میں 50سے زائد لوگ شہید ہوئے ہیں۔وزیراعظم نے سی پیک اورگوادرکے منصوبے کی کامیابی کو جنرل راحیل شریف کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف خوش نظرآرہے تھے کہ چیف آف آرمی سٹاف ساتھ کھڑا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی نے سب کو غمگین کردیا ہے پاکستانی کی خوشیاں کسی کو ایک آنکھ نہیں بہاتیں۔ آج ہی امریکہ اور دبئی کے دورے سے واپس پہنچا ہوں تو افسوسناک خبر بھی سننے کو ملی۔ پاکستان کی صورتحال پر امریکہ اور دبئی میں بڑی تشویش پائی جاتی ہے۔ لوگ پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ اداروں کومضبوط اورعدالتوںمیں انصاف چاہتے ہیں۔ میں نے امریکہ میںEarly ووٹ کاسٹ ہوتے بھی دیکھے اور8 نومبرکا الیکشن بھی دیکھا۔ یہ وہ الیکشن تھا جس پر پوری دنیا کی نظر تھی ہرکوئی اس کا نتیجہ سننے کیلئے بے تاب تھا۔ بحرکیف8 نومبرکو امریکی صدرکے الیکشن نے نہ صرف امریکہ کے اندر بلکہ دنیا بھرمیں تشویش پیدا کر دی ہے۔ ٹرمپ کی الیکشن مہم کے دوران تقاریر پر بہت اعتراض کیا جاتا رہا لیکن دنیا بھرمیں یہ تاثر تھا کہ یہ کوئی سنجیدہ امیدوار نہیں اور ہیلری کلنٹن بڑی آسانی سے یہ انتخاب جیت جائینگی لیکن دنیا بھرکے اندازے غلط ثابت ہوگئے۔81% ہیلری پر شرطیں لگانے والے ہارگئے۔CNN کے تجزئیے اور سروے غلط ثابت ہوگئے۔
امریکی صدارتی الیکشن کیلئے538 الیکٹرول ووٹ ہوتے ہیں جوکہ تمام ریاستوںکے ووٹوں کے تناسب سے بنتے ہیں۔ جیتنے والے امیدوارکیلئے270 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔8 نومبر2016ءکے الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے290 جبکہ ہیلری کلنٹن نے228 الیکٹرول ووٹ حاصل کئے جبکہ ریاستوں میں سے ٹرمپ کو29+ME-02 اور ہیلری کو19+DCسے کامیابی حاصل ہوئی۔ جہاں تک پاپولر ووٹوں کا تعلق ہے ٹرمپ کو60,265,858 اور ہیلری کلنٹن کو 60,839,922 ووٹ حاصل ہوئے اوریہPercentage 47.41فیصدٹرمپ جبکہ 47.86 فیصد ہیلری کو حاصل ہوئی اس طرح 0.45 فیصد پاپولر ووٹ کی اکثریت ہیلری کو ملی2016 کے امریکن صدارتی الیکشن میں231 ملین ووٹ تھے جن میں سے131.7ملین ووٹ کاسٹ ہوئے اس طرح ٹرن آﺅٹ 56.9 فیصد رہا۔مجھے نیویارک اور ٹیکساس میں الیکشن کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پاکستانی اور مسلمان نیویارک میں ہیلری کلنٹن کیلئے بہت سرگرم تھے جبکہ ٹیکساس میں ٹرمپ کیلئے کام کر رہے تھے۔ میرا دس سالہ بیٹا موسیٰ احمد خان گھر میں واحد تھا جو ٹرمپ کا حمائیتی تھا۔ میں نے اس سے حمائیت کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ دنیا میں دہشت گرد تنظیموںکی سرپرستی ہیلری کلنٹن نے کی ہے اور وہ مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہ دار ہے۔ دس سالہ بچے کی سوچ سن کر حیران ہوا لیکن معلوم ہوا کہ مسلمان اور پاکستانی تقسیم ہیں اور پھر الیکشن تقایر اور عمل میں بہت فرق ہوتا ہے۔ Obama Core سے 20 ملین امریکن فائدہ اٹھا رہے ہیں ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ یہ سکیم ختم کردینگے جس پر لوگوںکو بے حد تشویش تھی۔ ٹرمپ نے الیکشن جتینے کے بعد اس پرU-Turn لے لیا ہے۔ اس طرح امریکہ کے شہروں میں احتجاج کا مطلب پاکستان میں ہونے والے احتجاج کی طرح نہیں ہے جس میں اپوزیشن منتخب حکومت کوتسلیم نہیں کرتی اورلیڈرکہتے ہیںکہ ہم وزیراعظم کو نہیں مانتے۔ میںنے احتجاج کرنےوالوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم صرف اس لئے احتجاج کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کو باورکرایا جا سکے کہ ان کے چار سالہ دور اقتدار میںعوامی فلاح کی سکیموں کو بند نہ کیا جائے اور اقلیتوں کو تحفظ ملنا چاہئے۔ منتخب صدر ٹرمپ نے احتجاج کے حق کو تسلیم کیا لیکن یہ بھی کہاکہ یہ میرے ساتھ ناانصافی ہے۔ بحرحال کچھ بھی ہو امریکن سمیت تمام دنیاکے لوگوں کوانہیںچارسال برداشت کرنا پڑیگا۔9 نومبرکی صبح تک الیکشن کے رزلٹ دیکھنے کے بعد میں نے دبئی کارخ کیا۔ یہاں پر پاکستانیوںکی بہت بڑی تعداد رہتی ہے۔ہمارے دوست مخدوم رئیس قریشی نے بڑ ے کھانے کا اہتمام کیا جبکہ اگلے روز سردار اخترخان گوپالگ نے دوپہرکا کھانا کھلایا پاکستانی دوست بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ تمام پاکستانیوںکو ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات کو جاننے کی بے چینی تھی۔ صفدر رانا، میاں منیر ہانس، میاں عمر ابراہیم، حاجی نیک محمد خان، ارشد انجم، مجاہد علی، ملک اسلم اور دیگر دوستوں کو تشویش تھی کہ پاکستان اور مسلمانوں کے ساتھ ٹرمپ کی وجہ سے نقصان ہوگا۔ جس پر میں نے گزارش کی کہ سب سے پہلے تو یاد رکھنا چاہئے کہ ٹرمپ نے امریکہ کا نعرہ لگا کر الیکشن جیتا ہے امریکن مفادرکو فوقیت دی جائیگی اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ری پبلکن پارٹی کے دور میں پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں اور اس پارٹی کے امریکن صدر نے پاکستان کے دورے کئے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ری پبلکن جنگ کراتے ہیں اور فوجی حکمرانی پسندکرتے ہیں اس لئے ہمیں خیرکی توقع کرنی چاہئے سول حکومتوںکو اپنا رویہ اورگورننس کو بہتر بنانا چاہئے اگر جمہوری حکومتیںآمرانہ طرز حکومت اورکرپشن بند نہیں کرینگے تو پھر عوام کے پاس کیا راستہ رہ جاتا ہے سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کا مقدمہ آج سے شروع ہوگیا ہے ہمیں عدالتوںکو فری ہینڈ دینا چاہئے اور میں آج پھرکہتا ہوںکہ سپریم کورٹ کے ججوں پرکوئی دباﺅ نہیں ڈال سکتا۔ دبئی میں مقیم پاکستانیوں کو نیوز لیکس پر بھی تحفظات تھے لیکن ہمیں انکوائری کا انتظارکرنا چاہئے۔ اس قسم کی خبرکے آنے سے سکیورٹیbreach ہوئی ہے جس کو روکنا چاہئے ملک کے ساتھ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ ملک سلامت ہوگا تو ہم سب سلامت ہونگے۔ امریکہ کے انتخاب کے بعد ہونے والے احتجاج نے کئی بےوقوفوں کو خوش ہونے کا موقع دیا ہے لیکن ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ امریکہ کا نظام بہت مضبوط ہے، ادارے مضبوط ہیں، لوگ طاقتور ہیں جمہوری اقدارکو جانتے ہیں اس لئے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔ خطرہ تو ہمارے جیسے ملک کو ہے جہاں جمہوریت ہونے کے باوجود نہ حکمران جمہوریت کو سمجھتے ہیں اور نہ عوام۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب کے بعد پاکستان کو اپنے راستے کا تعین کرنا چاہئے۔ ملکوں کے تعلقات ملکوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ پاکستان کو نئے امریکی صدر ٹرمپ سے اچھی توقعات رکھنی چاہئے۔ ٹرمپ ایک بزنس مین ہے وہ نہ صرف اپنے ملک میںمعاشی بہتری لانے کی کوشش کرے گا بلکہ دنیا بھرمیں معاشی بہتری آئےگی۔ پاکستان کو اپنے معاملات ٹھیک کرنے چاہئیں۔ بڑے عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مستقل وزیرخارجہ ہونا چاہئے لیکن معلوم نہیں کہ کہ مصلحت کے تحت دو بوڑھے لوگوں کو خارجہ امور دئیے گئے ہیں جنکی موومنٹ ہی بہت محدود ہیں۔مخدوم خسرو بختاور وزیر مملکت برائے خارجہ امور رہے ہیں اور قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے رکن ہیںان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے صرف اس کیلئے فیصلے کی ضرورت ہے۔ملک کی بہتری کیلئے فیصلوں میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024