پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔ ہمیشہ سے ہی اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں۔ کبھی بھی قابل رشک، خوشگواریت نہیں پائی گئی۔ پاکستان کے حوالے سے امریکہ کی دونوں مقتدر سیاسی جماعتیں ایک ہی انداز فکر اور زاویہ نظر رکھتی ہیں۔ بظاہر ڈیموکریٹ پارٹی کا جھکائو ہمیشہ بھارت کی جانب رہا ہے مگر ری پبلکن پاکستان سے تعلقات کو فوقیت دیتی رہی۔ مگر دونوں پارٹیوں کے ادوار میں پاکستان کو دبائو میں رکھا گیا۔ دراصل بین الاقوامی سطح پر تعلقات ریاستی اور عوامی مفاد کو مد نظر رکھ کر استوار کئے جاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے موقع پر ہم نے مذہب کی بنیا دپر بھارت سے علیحدگی اختیار کی تھی لہذا کیمونسٹ بلاک میں جانا دشوار تھا۔ امریکہ بھی پھیلتے ہوئے کیمونزم سے خوف زادہ تھا دوسرے بھارتی جارحانہ عزائم کے خلاف ہمیں ایک مضبوط دوست درکار تھا۔ اسی طرح جنوبی ایشیاء میں امریکہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے پاکستان بہتر محسوس ہوا۔یہی وجوہات پاک امریکہ تعلقات کی بنیاد بنی۔ مگر 1965کی پاک بھارت جنگ میں امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد روک کر بھارت کو جدید اسلحہ فراہم کیا۔ پھر 1971ء میں امریکی ساتواں بحری بیڑہ ہماری مدد کے لئے حرکت میں تو آیا مگر سقوط ڈھاکہ تک نہ پہنچ پایا۔آگے چل کر بھارت نے 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کیا جس کے بعد امریکہ کو پاکستانی جوہری قوت کی فکر لاحق ہوگئی۔ پابندیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ شاید اسی کے جواب میں وزیراعظم محمد خان جونیجو نے 14 اگست 1987 کو یوم آزادی کے موقع پر واشگاف الفاظ میں جواب دیا کہ پاکستان اپنی بقا اور خود مختاری کے حوالے سے کسی دبائو کو قبول نہیں کرے گا۔ جہاں تک امریکی دوستی کا سوال ہے تو تاریخ گواہ ہے کہ وہ کبھی کسی کا دوست ثابت نہیں ہوا بلکہ دوست کے بھیس میں دشمن کا کردار ادا کرتا رہا۔ امریکہ نے تو روس کو شکست سے دوچار کرنے والے القائدہ اورطالبان کو نشان عبرت بنانے کے لئے 9/11کا ڈرامہ رچایا اور افغانستان پر نیٹو کی فوج سمیت چڑھائی کر ڈالی۔ کارپٹ بمباری کی گئی۔ اس جنگ میں اربوں کھربوں کا نقصان اٹھایا مگر ابھی تک طالبان کو مغلوب کرنے میں ناکام و نامراد ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک جانب عالمی سطح پر وقار مجروح ہوا دوسری طرف اقتصادیات بری طرح متاثر ہوئی۔16سال بعد بھی افغانستان کے وسیع علاقے پر طالبان کے قبضے سے امریکی حکام کے رویوں میں جھنجھلاہٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ جس کا اظہار وقتا فوقتا ہر امریکی عہدیدار کرتا رہتا ہے۔ امریکی صدر نے سال نو کی پہلی ٹویٹ میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ جس میں فرماتے ہیں کہ پاکستان کو پندرہ سالوں میں 33ارب ڈالرز کی امداد دی گئی لیکن پاکستان نے اس امداد کے عوض دھوکہ دیا۔ دہشت گردوں کے خلاف افغانستان میں امریکی جنگ کے دوران بہت کم تعاون کیا بلکہ جن دہشت گردوں کو امریکہ افغانستا ن میں تلاش کرتا رہا ان کو پاکستان نے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں۔ امداد کا فیصلہ کرنے والے امریکی قائدین کی بیوقوفی اور حماقت تھی کہ انہوں نے پاکستان کو 33ارب ڈالرز کی امداد فراہم کی۔ اب پاکستان کے لئے نو مور ہو گا یعنی امداد نہیں ملے گی۔ ٹرمپ کے بعد اعلیٰ امریکی عہدیدار بھی اپنے اپنے انداز میں پاکستان پر برستے کڑکتے رہے جس کے جواب میں پوری پاکستانی قوم نے یک زبان ہو کر امریکی امداد سے چھٹکارے کو عافیت قرار دیتے ہوئے امریکہ سے ہر قسم کے تعاون کو ختم کرنے کی پالیسی اپنانے پر زور دیا۔فوری طور پر امریکہ پر انحصار ختم کرتے ہوئے پاکستان کی تینوں مسلح افواج کو جدید ترین ہتھیاروں آلات کی تیاری امریکہ کی بجائے چین روس ترکی جنوبی کوریا اور جنوبی افریقہ کی منڈیوں میں تلاش کر لیا ہے جس کے بعد دفاعی معاملات میں اب امریکی کلیدی حیثیت ختم ہو چکی ہے۔ دوسرے پاکستان آئندہ چین کے ساتھ ہر قسم کے معاملات ڈالرکی بجائے ین کے ذریعے کرے گا۔ یعنی دونوں ممالک کا ڈالرز پر سے انحصار ختم۔ تاکہ اقتصادی محاذ پر بھی امریکہ سے خلاصی ہو سکے۔ یاد رہے کہ اگر امریکہ دفاعی شعبے میں مکمل بندش اور پاکستان کی جدید فوجی ٹیکنالوجی کی رسائی کو محدود کرتا ہے تو پاکستان ردعمل میں خفیہ ایجنسیوں کا تعاون مغربی فضائی راہ داری روک سکتا ہے۔ امریکی انٹیلی جینسیا کو علم ہے کہ افغانستان تک پہنچنے والی تمام لاجسٹک سپلائی پاکستانی بحری بری فضائی راستوں سے ہی ممکن ہے۔ان حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے امریکی سینٹرل کمانڈکے سربراہ جنرل جوزف نے پاک سپہ سالار جنرل قمر باجوہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے حالات کی شدت کو عارضی قرار دیا۔ جنرل جوزف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کو سراہتے ہیں۔ کولیکشن سپوٹ فنڈ کے متعلق امریکی فیصلے سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال عارضی مسئلہ ہے۔ امریکہ پاکستان پر یک طرفہ کاروائی پر غور نہیں کر رہا۔صدر ٹرمپ کے مشیر نے بھی جنرل باجوہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی امداد معطل کی گئی ہے منسوخ نہیں۔پاک فوج کے سربراہ کا جواب ملی غیرت و حمیت کا ترجمان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ امریکہ سے مالی امداد نہیں قربانیوں اور مثبت کردار کا اعتراف چاہتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی امن و استحکام کے لئے ہمارا عزم غیر متزلزل ہے۔قربانی کا بکرانہ بنایا جائے۔ موجودہ امریکی رویوں کے باعث پاکستانی قوم بدل چکی ہے۔ اب پاکستان کے پالیسی سازوں کا فرض ہے کہ مستقبل سازی میں خود اعتمادی ، خود انحصار ی کے حصول کے مطابق فیصلے کریں تاکہ آئندہ بین الاقوامی معاملات میں پاکستان ایک باوقار کردار ادا کر سکے جس کا خواب بانیان پاکستان نے دیکھا تھا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024