پنجاب کے 34ویں گورنر سید احمد محمود نے حلف اٹھاتے ہی یہ خوش آئند اعلان کر کے حیران کر دیا تھا کہ وہ گورنر کی حیثیت سے کوئی سرکاری مراعات نہیں لیں گے اور نہ ہی سرکاری خزانہ سے تنخواہ لیں گے بلکہ گورنر ہاﺅس کے اخراجات بھی اپنی ذاتی آمدنی سے کریں گے۔ وہ گورنر ہاﺅس میں کسی بھی قسم کے وی آئی پی کلچر کو ختم کر دیں گے اور اپنے گھر سے صرف ڈیوٹی دینے آئیں گے اور شام کو واپس اپنے گھر چلے جائیں گے۔ انہوں نے اپنی سکیورٹی لینے سے بھی انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ موت سے نہیں ڈرتے کیونکہ ان کی رگوں میں حسینی خون ہے۔ وہ اپنے گھر ڈیفنس سے گورنر ہاﺅس تک بغیر کسی پروٹوکول کے عام شہری کی حیثیت سے ٹریفک روکے بغیر سفر کرتے ہیں جس سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ احکامات جاری کر رکھے ہیں ان کی آمدورفت کے وقت ٹریفک بالکل نہ روکی جائے اور معمول کے مطابق سگنلز چلائے جائیں۔ ملک میں کسی سیاست دان کی طرف سے پروٹوکول کے خاتمے کا یہ پہلا واقعہ ہے جس کی تقلید دوسرے برسر اقتدار اشرافیہ کو بھی کرنی چاہئے۔ گورنر پنجاب ریاست بہاولپور کے سابق وزیراعظم مخدوم حسن محمود کے صاحبزادے اور مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ کے پوتے ہیں جو قائداعظمؒ کے قریبی ساتھی تھے اور موجودہ پیر پگاڑا کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔
انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلے گورنر ہاﺅس کے مین گیٹ سے سیاست دانوں کی بڑی بڑی تصاویر والے ہورڈنگز اور مبارکبادوں کے بینرز بھی اتروا دیئے ہیں۔ شاہراہ قائداعظم پر پہلے الحمراءآرٹس کونسل کے باہر سٹیج ڈراموں اور دیگر ثقافتی تقریبات کے لئے لگائے گئے بڑے بڑے بورڈ لگے ہوئے ہیں، اس سے آگے گورنر ہاﺅس کو دیکھ کر بھی کسی تھیٹر کا ہی گماں ہوتا تھا۔ اب گورنر صاحب کے احکامات سے گورنر ہاﺅس کا تقدس بحال ہو گیا ہے۔ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب جس کی آبادی 10 کروڑ کے قریب ہے، اس کے گورنر کی طرف سے عام شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنا ایک خواب کی مانند ہے کیونکہ گورنر ہاﺅس کی آب و ہوا ہی ایسی ہے کہ اس کا مکین گورنر یہاں داخل ہوتے ہی لاٹ صاحب لاٹ صاحب کی سحرانگیز صداﺅں سے مخمور ہو جاتا ہے۔ اس کی تعمیر ہی انگریزوں نے اس طرح کی ہوئی ہے۔ یہ خطہ¿ زمین خوابوں کی نگری ہے۔ پنجاب کا گورنر ہاﺅس 76 ایکڑ یعنی تین مربع رقبہ پر محیط ہے۔ اس میں تقریباً ایک ہزار ملازمین اس کی دیکھ بھال کے لئے مقرر ہیں جو اندر ہی رہائش پذیر ہیں۔ لاٹ صاحب کی رہائش گاہ کے ساتھ ان کی دلچسپی کے لئے کھیلوں کی کشادہ گراﺅنڈیں، جن میں ٹینس کورٹ، بیڈمنٹن کوٹ، جم، کشتی رانی کے لئے ایک بڑی نہر، سوئمنگ پول، پہاڑیاں، ہر قسم کے پھل، پھول اور سبزیاں ہوتی ہیں۔ لائیو سٹاک ڈیری، لڑکے اور لڑکیوں کے لئے دو سکول، ایک ووکیشنل سکول، جس میں ملازمین کے بچوں کے علاوہ باہر سے بھی بچوں کو داخل کیا جاتا ہے، 16 بستروں کا ایک مکمل ہسپتال 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے اور اندر گورنر ہاﺅس کا ایک اپنا تھانہ بھی ہے۔
اس گورنر ہاﺅس کو 1947ءسے 2013ءتک 34 گورنرز کی میزبانی کا شرف حاصل رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس کے مکینوں میں سب سے پہلے گورنر جو انگریز تھے سر رابرٹ فرانسس 1949ءتک رہے، اس کے بعد بالترتیب گورنرز جن میں سردار عبدالرب نشتر، آئی آئی چندریگر، میاں امین الدین، حبیب ابراہیم رحمت اللہ، نواب مشتاق احمد گورمانی، محترم اختر حسین، ملک امیر محمد خان نواب آف کالا باغ، جنرل محمد موسیٰ خان، یوسف ہارون، ایئر مارشل نور خان، لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمن، غلام مصطفےٰ کھر، نواب صادق حسین قریشی، محمد عباس عباسی، مسٹر جسٹس اسلم ریاض حسین، جنرل سوار خان، جنرل غلام جیلانی خاں، مخدوم سجاد حسین قریشی، جنرل ٹکا خاں، میاں محمد اظہر، چوہدری الطاف حسین، جنرل محمد اقبال، جسٹس الیاس، جنرل راجہ سروپ خاں، جسٹس خلیل الرحمن خاں، خواجہ احمد طارق رحیم، شاہد حامد، چوہدری پرویز الٰہی، سردار ذوالفقار خاں کھوسہ، جنرل محمد صفدر، جنرل خالد مقبول، سلمان تاثیر، سردار لطیف کھوسہ اور موجودہ گورنر مخدوم سید احمد محمود شامل ہیں۔ غلام مصطفےٰ کھر، چوہدری الطاف حسین اور جسٹس محمد الیاس جو قائمقام گورنر تھے دو مرتبہ گورنر بننے کا شرف حاصل رہا ہے۔ گورنر خالد مقبول کو سب سے زیادہ 7 سال اور نواب امیر محمد خاں آف کالا باغ کو دوسرے نمبر پر 6 سال تک گورنر ہاﺅس میں مقیم رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔
میرے والد محترم حکیم مراد چغتائی مرحوم گورنر اختر حسین کے سپیچ رائٹر کے طور پر گورنر ہاﺅس جاتے تھے اور مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ یہ 1957ءسے 1960ءکا دور تھا۔ اس وقت کا یہ گورنر ہاﺅس تھا اب وقت کے ساتھ ساتھ مزید تبدیلیوں نے اس کے حسن میں کتنا اضافہ کر دیا ہوگا اور نئی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے انقلاب نے یقیناً اس کی شکل و صورت کو مزید دلکش بنا دیا ہوگا۔ گورنر مخدوم احمد محمود صاحب سے یہ گزارش ہے کہ وہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ جاری رکھیں، اس سے یقیناً انہیں عوامی گورنر ہونے کا شرف حاصل رہے گا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024